گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روایت ہے۔ یہ مدد تنظیموں سوسائٹی اور انفرادی طور پر بھی ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں مذہب برادری کی تفریق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ایسے کامیابی کے قصے ہیں جس کی مثال پیش کی جاتی ہیں۔ ایسی ایک سوسائٹی ' الخیر کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی ہے جس کا دفتر شہر میں واقع ملت ہسپتال کے احاطے میں ہے۔ یہاں بلا تفریق مذہب و ملت قرض فراہم ہوتا ہے۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سوسائٹی کی جانب سے دی گئی قرض کی رقم ہی صرف واپس لی جاتی ہے بلکہ قرض کی رقم پر کچھ رقم متعین ہوتی ہے۔ وہی رقم ملاکر واپس وصول ہونے کا نظم ہے لیکن خاص پہلو یہ ہے کہ اس کے آسان نظام سے کئی کامیابی قصے ہوگئے ہیں۔ اب ان کامیاب افراد کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
ان کامیاب افراد میں 25 برس کے بٹو کمار بھی پہں۔بٹو کمار کم وقت میں الخیر سوسائٹی کی مدد سے ایک بڑی تجارت کی طرف بڑھے ہیں۔بٹو کمار شہر کے اشوک نگر اے این کالج محلہ کے رہنے والے ہیں۔ پہلے وہ انوگرہ نارئن میموریل کالج کی مارکیٹ میں واقع کیک کی ایک دوکان میں کام کرتے تھے لیکن اب وہ دوکان انکی خود کی ہوگئی ہے۔
ایک لاکھ سے شروع کیا کاروبار
بٹو کمار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ پہلے وہ ایک دوکان میں کام کرتے تھے ، دوکان مالک کسی وجہ سے دوکان بند کررہے تھے تبھی انہوں نے کرایہ پر انہیں دوکان دینے کی پیشکش کردی ، لیکن بٹو کمار کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ تجارت شروع کریں لیکن تبھی انہیں کسی دوست نے الخیر سوسائٹی سے رابطہ کرایا اور پھر وہاں سے انہوں نے ایک لاکھ روپے قرض لیکر کیک کی دوکان شروع کی ، ابتدا میں وہ کیک کسی فیکٹری سے خرید کر لاتے اور پھر اسے فروخت کرتے لیکن انکے پسند کی کوائلٹی کے کیک نہیں ہونے کی وجہ سے انہوں اپنی فیکٹری کھولنے کا ارادہ کیا اور پھر قرض لیکر فیکٹری شروع کردی ، انہوں نے اپنی فیکٹری میں سات لوگوں کو روزگار دے رکھا ہے ، بٹو بتاتے ہیں کہ وہ اس تجارت سے مطمئن ہیں ، فیکٹری کھولنے میں 25 لاکھ کا قرض ہوا جوکہ اب پورا ہونے کو ہے۔
الخیر کی مدد کی بناء پر ملی کامیابی
بٹو کمار بتاتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی نے انکی مدد کی ہے اگر الخیر سوسائٹی ابتدا کرنے میں مدد نہیں کرتی تو وہ آج اس مقام تک نہیں پہنچتے چونکہ الخیر نے انکی دوکان کھولنے میں مدد کی اس وجہ سے وہ فیکٹری کھولنے میں کامیاب ہوئے ۔ حالانکہ انہوں نے بتایاکہ فیکٹری کھولنے کے لیے ایک دوسرے نجی بینک سے بھی 25 لاکھ کا قرض لیا تھا لیکن الخیر سوسائٹی کے وہ شکر گزار ہیں کہ آج بھی سوسائٹی کی جانب سے ان کی مدد ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:تربیت یافتہ خواتین بینکوں کا کسٹمرز سروس سینٹر چلائیں گی
ان کا کہنا مزید کہنا تھا کہ انہیں کبھی ہندو مسلم کا احساس نہیں ہوا ۔ اگر معاشرے میں اور بھی لوگ اسی طرح بلا تفریق کام کریں تو بے روزگاری بھی ختم ہوگی اور ایک دوسرے کی مدد بھی بڑے پیمانے پر ہوگی لیکن شرط یہ کہ مدد حاصل کرنے والا بھی پوری ایمانداری سے اسکے ساتھ ہوئے معاہدے پر قائم رہے