طلباء و طالبات کی رہائش کی دشواریوں کے پیش نظر آزاد اکیڈمی کے احاطہ میں ہی 2011 میں 50 لاکھ 68 ہزار روپے کے صرفہ سے محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے تعمیر ہوئی تھی۔
دو درجن سے زائد اس ہاسٹل میں کمرے بنائے گئے تھے۔ نیز ہاسٹل میں ہی طلباء کی سہولت کے پیش نظر ساری سہولیات مہیا کرائی گئی تھیں مگر تعمیری کام کے بعد ہاسٹل کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب آہستہ آہستہ یہ ہاسٹل کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے اسکول انتظامیہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑا کر رہی تھی کہ یہاں لڑکیوں کا ہاسٹل چلانا ناممکن ہے مگر محکمہ اقلیتی فلاح نے مذکورہ ہاسٹل کو گرلز کے بجائے بوائز ہاسٹل میں تبدیل کر دیا اس کے بعد بھی ہاسٹل کی حالت ہنوز خستہ ہے۔
یہاں اب تک کسی طالب علم کے لیے رہائش کا نظم نہیں ہو سکا ہے۔ گزشتہ دنوں اقلیتی ویلفیئر افسر وجے کمار نے ہاسٹل کی از سر نو مرمت کرائی تھی اور اسکول انتظامیہ کے سپرد کیا تھا اس کے بعد بھی ہاسٹل میں رکھے سامان کو چند شرپسندوں نے نقصان پہنچایا۔
ہاسٹل کا معائنہ کرنے آئے ویلفیئر افسر کے ساتھ ضلع اوقاف کمیٹی کے ضلع صدر عبدالغنی بھی جب ہاسٹل پہنچے تو مین گیٹ کا تالا ٹوٹا ہوا پایا نیز اندرونی کمروں کے تالے بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد کرسیاں، ٹیبل، الماری اور بجلی کے بورڈ کو نوچا ہوا پایا۔
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ضلع اوقاف کمیٹی کے ضلع صدر عبدالغنی نے کہا کہ بڑی محنت سے اس ہاسٹل کو دوبارہ سے رنگ و روغن و دے کر سامان مہیا کرا کر ہاسٹل کو شروع کرنے کا منصوبہ تھا مگر مقامی شرپسند عناصر کی بدمعاشی کی وجہ سے ہم لوگوں کے منصوبے پر پانی پھر گیا۔ ہم لوگ پھر دوبارہ سے اسے شروع کریں گے اور جو لوگ بھی ایسی حرکت کی ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس بابت جب آزاد اکیڈمی کے پرنسپل عبدالمنان سے کچھ سوالات کئے گئے تو انہوں نے کچھ بتانے سے انکار کر دیا