ETV Bharat / state

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

author img

By

Published : Feb 11, 2021, 1:14 PM IST

بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کے پاس اگر ایل پی سی (لینڈ پزیشن سرٹیفیکیٹ) نہیں ہے تو اس صورت میں سرکاری مدد دستیاب نہیں ہوگی. بہار حکومت نے مدرسہ استحکام منصوبہ کا فائدہ دینے کے لیے مدرسہ کے نام پر ایل پی سی ہونا لازمی قرار دیا ہے۔

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

بہار میں اقلیتوں کے لیے حکومت کا منصوبہ صرف دکھاوے اور بیان بازی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے. مدارس کے استحکام اور اسے فروغ دینے کے لیے بنائے گئے منصوبوں کے فائدے سے مدراس محروم ہیں۔ وجہ حکومت کی سخت بندشیں اور شرائط ہیں۔

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

ایک طرف حکومت کے ماتحت بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کی تعمیر و ترقی کا حکومت دعوی کرتی ہے تو دوسری طرف مدرسے کو سہولیات دستیاب کرانے کے لیے مدرسے کے نام سے ایل پی سی ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ان مدرسے کو حکومت کے منصوبے کے تحت تعمیراتی کاموں کے لیے مدد نہیں پہنچے گی جن کے پاس مدرسہ کے نام سے لینڈ پزیشن سرٹیفکیٹ (land possession certificate) نہیں ہوگی، خواہ مدرسہ کی زمین گورنر کے نام سے ہی کیوں نہیں رجسٹرڈ ہو.

دراصل بہار حکومت کے محکمہ اقلیتی فلاح نے مدارس کی جدید کاری اور نظام کے استحکام کے لیے منصوبے کا آغاز کیا تھا جس میں کئی سخت شرائط ہیں۔

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'ٍ

ضلع گیا میں بہار مدرسہ بورڈ سے چھ مدرسے ملحق ہیں جہاں پر بچوں کی تعلیمی نظام کو موثر بنانے اور سہولیات دستیاب کرانے کے لئے حکومت کے اس منصوبے کی ضرورت ہے.

اس منصوبے کا فائدہ لینے کے لئے سب سے پہلے مدرسے کی زمین کا ایل پی سی ہونا ضروری ہے اور یہ مدرسہ کے نام پر ہی ہونا لازمی ہے.

مدرسہ کے نام پر ایل پی سی تبھی ممکن ہے جب زمین کی رجسٹری مدرسہ کے نام پر ہوگی.

زیادہ تر مدرسے کی زمین وقف کرنے والوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں یا پھر کسی واقف نے مدرسے کی زمین گورنر کے نام پر رجسٹری برسوں قبل کردیا ہے.

قانونی طور پر اگر گورنر کے نام پر کوئی زمین رجسٹری ہے تو پھر اس زمین کا ایل پی سی کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن محکمہ اقلیتی فلاح کے مطابق ایل پی سی جس مدرسہ کے نام پر نہیں ہے.

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

انہیں مدرسہ استحکام منصوبے کا فائدہ نہیں ملے گا جس کی وجہ کر مدارس کے ذمے دار محکمہ اقلیتی فلاح کے دفتر کا چکر کاٹ رہے ہیں تاہم ان کی پریشانیوں کا حل نہیں نکلا ہے حیران کن تو یہ ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ بھی اس پریشانی کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے.

مزید پڑھیں:بہار مدرسہ بورڈ نے دارالعلوم وقف دیوبند کی سند کو منظوری دی

مستحکم منصوبہ کے تحت عمارت، بیت الخلاء، پانی کے لیے بورنگ جیسی چیزوں کا انتظام اقلیتی فلاح کی جانب سے ہونا ہے۔

ای ٹی وی بھارت اردو نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مدارس کے ذمے دار اور ضلع اقلیتی فلاح افسر سے بات کی ہے.

گیا کے ٹکاری میں واقع ستر برس قدیم مدرسہ ارشادالعلوم کے انچارج مدرس ناہید اختر نے کہا کہ حکومت کے منصوبے کے تحت جو کاغذات مانگے گئے ہیں۔

اس میں ایل پی سی اور نو ڈیوز سرٹیفکیٹ بھی دینا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو تیس چالیس برس قبل واقف نے زمین وقف کیا اس کی رجسٹری اپنے نام سے کرایاہے یا پھر گورنر کے نام سے رجسٹری کی گئی ہے ایسی صورتحال میں ایل پی سی مدرسہ کے نام سے ممکن نہیں ہے.

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

مدرسہ گلشن طیبہ کے مدرس نے بتایا کہ انکے مدرسہ کی زمین واقف کے نام سے رجسٹری ہے، اسی شرط پر رجسٹری ہے مدرسہ کا متولی انکے خاندان کا فرد ہوگا اب زمین کی دوبارہ رجسٹری ممکن نہیں ہے ایسی صورت میں انکا مدرسہ اسکیم سے محروم رہ سکتا ہے ۔

اس سلسلے میں ضلع اقلیتی فلاح افسر جتیندر کمار نے کہا کہ مدارس کے ذمہ داران سے اس ضمن میں درخواست طلب کی گئی ہے کہ وہ اپنے مسائل بتائیں تاکہ محکمہ سے رابطہ کر کے مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ اقلیتی فلاح کے اس منصوبے کے نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے ہے کہ جس مدرسے کے نام پر ایل پی سی ہوگا اسی کو اس اسکیم کا فائدہ ملے گا۔

گورنر کے نام پر رجسٹرڈ زمین کا ایل پی سی نہیں ہوتا ہے اس لیے محکمہ سے اس ضمن میں رابطہ کرکے ہدایت مانگی گئی ہے۔

بہار میں اقلیتوں کے لیے حکومت کا منصوبہ صرف دکھاوے اور بیان بازی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے. مدارس کے استحکام اور اسے فروغ دینے کے لیے بنائے گئے منصوبوں کے فائدے سے مدراس محروم ہیں۔ وجہ حکومت کی سخت بندشیں اور شرائط ہیں۔

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

ایک طرف حکومت کے ماتحت بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کی تعمیر و ترقی کا حکومت دعوی کرتی ہے تو دوسری طرف مدرسے کو سہولیات دستیاب کرانے کے لیے مدرسے کے نام سے ایل پی سی ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ان مدرسے کو حکومت کے منصوبے کے تحت تعمیراتی کاموں کے لیے مدد نہیں پہنچے گی جن کے پاس مدرسہ کے نام سے لینڈ پزیشن سرٹیفکیٹ (land possession certificate) نہیں ہوگی، خواہ مدرسہ کی زمین گورنر کے نام سے ہی کیوں نہیں رجسٹرڈ ہو.

دراصل بہار حکومت کے محکمہ اقلیتی فلاح نے مدارس کی جدید کاری اور نظام کے استحکام کے لیے منصوبے کا آغاز کیا تھا جس میں کئی سخت شرائط ہیں۔

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'ٍ

ضلع گیا میں بہار مدرسہ بورڈ سے چھ مدرسے ملحق ہیں جہاں پر بچوں کی تعلیمی نظام کو موثر بنانے اور سہولیات دستیاب کرانے کے لئے حکومت کے اس منصوبے کی ضرورت ہے.

اس منصوبے کا فائدہ لینے کے لئے سب سے پہلے مدرسے کی زمین کا ایل پی سی ہونا ضروری ہے اور یہ مدرسہ کے نام پر ہی ہونا لازمی ہے.

مدرسہ کے نام پر ایل پی سی تبھی ممکن ہے جب زمین کی رجسٹری مدرسہ کے نام پر ہوگی.

زیادہ تر مدرسے کی زمین وقف کرنے والوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں یا پھر کسی واقف نے مدرسے کی زمین گورنر کے نام پر رجسٹری برسوں قبل کردیا ہے.

قانونی طور پر اگر گورنر کے نام پر کوئی زمین رجسٹری ہے تو پھر اس زمین کا ایل پی سی کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن محکمہ اقلیتی فلاح کے مطابق ایل پی سی جس مدرسہ کے نام پر نہیں ہے.

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

انہیں مدرسہ استحکام منصوبے کا فائدہ نہیں ملے گا جس کی وجہ کر مدارس کے ذمے دار محکمہ اقلیتی فلاح کے دفتر کا چکر کاٹ رہے ہیں تاہم ان کی پریشانیوں کا حل نہیں نکلا ہے حیران کن تو یہ ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ بھی اس پریشانی کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے.

مزید پڑھیں:بہار مدرسہ بورڈ نے دارالعلوم وقف دیوبند کی سند کو منظوری دی

مستحکم منصوبہ کے تحت عمارت، بیت الخلاء، پانی کے لیے بورنگ جیسی چیزوں کا انتظام اقلیتی فلاح کی جانب سے ہونا ہے۔

ای ٹی وی بھارت اردو نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مدارس کے ذمے دار اور ضلع اقلیتی فلاح افسر سے بات کی ہے.

گیا کے ٹکاری میں واقع ستر برس قدیم مدرسہ ارشادالعلوم کے انچارج مدرس ناہید اختر نے کہا کہ حکومت کے منصوبے کے تحت جو کاغذات مانگے گئے ہیں۔

اس میں ایل پی سی اور نو ڈیوز سرٹیفکیٹ بھی دینا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو تیس چالیس برس قبل واقف نے زمین وقف کیا اس کی رجسٹری اپنے نام سے کرایاہے یا پھر گورنر کے نام سے رجسٹری کی گئی ہے ایسی صورتحال میں ایل پی سی مدرسہ کے نام سے ممکن نہیں ہے.

'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'
'محکمہ اقلیتی فلاح کے سخت شرائط کی وجہ سے مدراس سرکاری اسکیم سے محروم'

مدرسہ گلشن طیبہ کے مدرس نے بتایا کہ انکے مدرسہ کی زمین واقف کے نام سے رجسٹری ہے، اسی شرط پر رجسٹری ہے مدرسہ کا متولی انکے خاندان کا فرد ہوگا اب زمین کی دوبارہ رجسٹری ممکن نہیں ہے ایسی صورت میں انکا مدرسہ اسکیم سے محروم رہ سکتا ہے ۔

اس سلسلے میں ضلع اقلیتی فلاح افسر جتیندر کمار نے کہا کہ مدارس کے ذمہ داران سے اس ضمن میں درخواست طلب کی گئی ہے کہ وہ اپنے مسائل بتائیں تاکہ محکمہ سے رابطہ کر کے مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ اقلیتی فلاح کے اس منصوبے کے نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے ہے کہ جس مدرسے کے نام پر ایل پی سی ہوگا اسی کو اس اسکیم کا فائدہ ملے گا۔

گورنر کے نام پر رجسٹرڈ زمین کا ایل پی سی نہیں ہوتا ہے اس لیے محکمہ سے اس ضمن میں رابطہ کرکے ہدایت مانگی گئی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.