ETV Bharat / state

پٹنہ: مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی زبوں حالی کا شکار

author img

By

Published : Sep 27, 2021, 4:34 PM IST

پٹنہ کا سو سالہ قدیم تاریخی ادارہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی

ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی ایک ایسا ملی، دینی و عصری ادارہ ہے جس نے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے لاکھوں نو نہالوں کو اس قابل بنایا کہ آج وہ ریاست و ملک کے مختلف گوشوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی

اس ادارہ کو جسٹس نور الہدی نے 12 نومبر سنہ 1921 کو اپنے والد مولانا شمس الہدی کے نام پر شہر کے اشوک راج پتھ پر قائم کیا تھا۔

بہار کا کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں مدرسہ شمس الہدی کے فارغین موجود نہ ہوں۔ اس ادارے نے ایک جانب جہاں ممتاز عالم دین پیدا کئے تو وہیں دوسری جانب یہاں کے فارغین اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے علاوہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوئے جن میں امارت شرعیہ بہار اُڑیسہ و جھارکھنڈ کے پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے شیخ الحدیث مولانا شمس الحق صاحب، نامور ادیب پروفیسر عبد المغنی، سابق وزیر ڈاکٹر عبد الغفور، این سی پی یو ایل کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام الدین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے سابق صدر پروفیسر مختار الدین آرزو، مجاہد اردو مولانا بیتاب صدیقی اور شاعر انقلاب علامہ معصوم شرفی اسیر وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔

مدرسہ کے بانی جسٹس نور الہدی نے سنہ 1919 میں بڑے اراضی میں قائم مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کو تمام وقف ملکیت کے ساتھ حکومت بہار کے سپرد کر دیا تاکہ حکومت کی نگرانی میں مدرسہ ترقی کی منازل طئے کرے۔

یکم جنوری 1920 کو حکومت بہار نے مدرسہ کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا جو آج تک اسی کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ مدرسہ شمس الہدی صوبہ بہار کا واحد ادارہ ہے جو راست طور پر حکومت کے ماتحت ہے۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی دو سیکشن میں تقسیم ہے۔ جونیئر سیکشن جس میں تحتانیہ سے وسطانیہ یعنی کلاس ون سے کلاس آٹھ تک تعلیم ہوتی ہے وہیں سینئر سیکشن میں مولوی سے فاضل یعنی انٹر سے پوسٹ گریجویٹ تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے مدرسہ میں کل 21 اساتذہ کی پوسٹ کی منظوری ہے جبکہ ملازمین کی پوسٹ 13 ہیں۔

سو سالہ قدیم و تاریخی ادارہ آج حکومت کی عدم توجہی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے۔ رفتہ رفتہ اساتذہ کی سبکدوشی کے بعد لمبے عرصے سے یہاں کسی نئے اساتذہ کی تقرری عمل میں نہیں آئی۔

اس وقت صرف چار اساتذہ ہی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ 17 اساتذہ کی پوسٹ خالی ہے۔ اسی طرح ملازمین کی 13 پوسٹ ہونے کے باوجود اس وقت صرف 6 ملازمین مامور ہیں۔

مدرسہ کے پرنسپل مولانا مشہود قادری ندوی کہتے ہیں کہ مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کو کئی خطوط لکھے گئے ہیں۔

وہیں تاریخی مدرسہ کے زبوں حالی پر سیاسی رہنماؤں نے بھی نتیش کُمار حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔

ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی شاہنواز عالم کہتے ہیں مدرسہ شمس الہدی کے اساتذہ کی بحالی معاملے کو وہ اسمبلی میں اٹھاتے رہے ہیں اور آگے مزید اٹھائیں گے۔

وہیں آر جے ڈی کے ریاستی ترجمان اعجاز احمد، نتیش حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مدرسہ شمس الہدی میں اساتذہ کی تقرری کے مسئلے کا حل نہیں کیا گیا تو پورے بہار میں تحریک چلائیں گے۔

حالانکہ اس حساس مسئلہ پر حکومت کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ بولنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ کا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی ایک ایسا ملی، دینی و عصری ادارہ ہے جس نے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے لاکھوں نو نہالوں کو اس قابل بنایا کہ آج وہ ریاست و ملک کے مختلف گوشوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی

اس ادارہ کو جسٹس نور الہدی نے 12 نومبر سنہ 1921 کو اپنے والد مولانا شمس الہدی کے نام پر شہر کے اشوک راج پتھ پر قائم کیا تھا۔

بہار کا کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں مدرسہ شمس الہدی کے فارغین موجود نہ ہوں۔ اس ادارے نے ایک جانب جہاں ممتاز عالم دین پیدا کئے تو وہیں دوسری جانب یہاں کے فارغین اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے علاوہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوئے جن میں امارت شرعیہ بہار اُڑیسہ و جھارکھنڈ کے پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے شیخ الحدیث مولانا شمس الحق صاحب، نامور ادیب پروفیسر عبد المغنی، سابق وزیر ڈاکٹر عبد الغفور، این سی پی یو ایل کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام الدین، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے سابق صدر پروفیسر مختار الدین آرزو، مجاہد اردو مولانا بیتاب صدیقی اور شاعر انقلاب علامہ معصوم شرفی اسیر وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔

مدرسہ کے بانی جسٹس نور الہدی نے سنہ 1919 میں بڑے اراضی میں قائم مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کو تمام وقف ملکیت کے ساتھ حکومت بہار کے سپرد کر دیا تاکہ حکومت کی نگرانی میں مدرسہ ترقی کی منازل طئے کرے۔

یکم جنوری 1920 کو حکومت بہار نے مدرسہ کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا جو آج تک اسی کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ مدرسہ شمس الہدی صوبہ بہار کا واحد ادارہ ہے جو راست طور پر حکومت کے ماتحت ہے۔

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی دو سیکشن میں تقسیم ہے۔ جونیئر سیکشن جس میں تحتانیہ سے وسطانیہ یعنی کلاس ون سے کلاس آٹھ تک تعلیم ہوتی ہے وہیں سینئر سیکشن میں مولوی سے فاضل یعنی انٹر سے پوسٹ گریجویٹ تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے مدرسہ میں کل 21 اساتذہ کی پوسٹ کی منظوری ہے جبکہ ملازمین کی پوسٹ 13 ہیں۔

سو سالہ قدیم و تاریخی ادارہ آج حکومت کی عدم توجہی کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے۔ رفتہ رفتہ اساتذہ کی سبکدوشی کے بعد لمبے عرصے سے یہاں کسی نئے اساتذہ کی تقرری عمل میں نہیں آئی۔

اس وقت صرف چار اساتذہ ہی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ 17 اساتذہ کی پوسٹ خالی ہے۔ اسی طرح ملازمین کی 13 پوسٹ ہونے کے باوجود اس وقت صرف 6 ملازمین مامور ہیں۔

مدرسہ کے پرنسپل مولانا مشہود قادری ندوی کہتے ہیں کہ مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کو کئی خطوط لکھے گئے ہیں۔

وہیں تاریخی مدرسہ کے زبوں حالی پر سیاسی رہنماؤں نے بھی نتیش کُمار حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔

ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی شاہنواز عالم کہتے ہیں مدرسہ شمس الہدی کے اساتذہ کی بحالی معاملے کو وہ اسمبلی میں اٹھاتے رہے ہیں اور آگے مزید اٹھائیں گے۔

وہیں آر جے ڈی کے ریاستی ترجمان اعجاز احمد، نتیش حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مدرسہ شمس الہدی میں اساتذہ کی تقرری کے مسئلے کا حل نہیں کیا گیا تو پورے بہار میں تحریک چلائیں گے۔

حالانکہ اس حساس مسئلہ پر حکومت کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ بولنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.