لیکن اب ان جیسے لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹنے لگا ہے۔مثال کے طور پر کٹیہار کے کرسیلا بلاک کے مہیش پور ہائی وے پر ٹائر پنچر بنانے کا کام کرنے والے شکیل اب چوری چھپے اپنی دکان کھول رہے ہیں۔
پولس کی سختی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہی دکان اس کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے لاک ڈاؤن کے بعد سے بند ہونے کے بعد اب ہمت جواب دینے لگی ہے کیونکہ راشن پانی ختم ہوگیا ہے۔
وہاں پر موجود لوگوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد غریبوں کو بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہو رہا ہے؛
کٹیہار اور سہرسہ علاقے کے کسانوں کی اصل فصل مکا، گیہوں اور دھان ہے اور کسانوں کے پاس مکا کا ستو ہی پیٹ بھرنے کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔ ایک مقامی کسان نے بتایا کہ غریب لوگ بُھٹا ابال کر اور ستو کھا کر لاک ڈاؤن کے دن کاٹ رہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے راشن دینے کا اعلان کیا ہے اور کچھ جگہوں پر راشن تقسیم بھی ہو رہا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق چالیس فیصدی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے وہ بے چارے اپنا پیٹ کیسے پالیں گے۔
لوگوں کے ذہنوں میں کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں لیکن اس کا کسی کے پاس تشفی بخش جواب نہیں ہے۔ ناسخ کا ایک شعر ان حالات میں بڑا مناسب لگتا ہے۔
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
آپ کو بتا دیں کہ ضلع کٹیہار میں ابھی تک کورونا کا کوئی بھی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے جب کہ پورے بہار میں اب تک کورونا سے تین لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔