ETV Bharat / state

Popularity of MIM in Bihar بہار میں ایم آئی ایم کی مقبولیت سے نتیش کمار پریشان؟

author img

By

Published : Jan 6, 2023, 4:27 PM IST

Updated : Jan 6, 2023, 6:11 PM IST

کل ہند مجلس اتحادالمسلمین جنوبی ریاست تلنگانہ کے دارلحکومت حیدرآباد میں متعدد اسمبلی حلقوں پر اپنی گرفت کو برقررار رکھے ہوئے ہے جبکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران شمالی ہند کی ریا ستوں میں بھی اپنی موجودگی درج کی ہے اور کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ مہاراشٹر اور بہار میں اسمبلی نشستوں پر کامیابی کے بعد ایم آئی ایم نے دہلی،گجرات سمیت مختلف ریاستوں میں قسمت آزما ئی کی، لیکن منزل مقصود سے دور رہی۔Nitish Kumar's Advice to Muslim Leaders

ایم آئی ایم
ایم آئی ایم
ایم آئی ایم

گزشتہ چند برسوں سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کی سیاست میں سرخیوں میں رہی ہے، حالیہ دنوں گوپال گنج اور کڑھنی کے ضمنی انتخاب نے عظیم اتحاد کے اعلیٰ لیڈران کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا مسلم ووٹوں پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لئے 2024 پارلیمانی انتخاب اور پھر 2025 میں اسمبلی انتخاب آسان نہیں ہوگا؟ گزشتہ دنوں سی ایم ہاؤس میں جس طرح وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے پارٹی کے مسلم لیڈران و کارکنان کو ایم آئی ایم کے بڑھ رہے دائرہ کو روکنے کے لئے جو سبق پڑھایا ہے، سیاسی گلیاروں میں اس کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں، گزشتہ دو انتخاب میں شکست کی اصل وجہ ایم آئی ایم کو بتاتے ہوئے نتیش کمار آنے والے انتخاب میں ہوشیار اور خبردار رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ Nitish Kumar's Advice to Muslim Leaders

میٹنگ میں جدیو لیڈران نے ایم آئی ایم کے خلاف زبردست تقریریں کیں اور کہا کہ ملک کو بچانے کے لیے بھاجپا اور ایم آئی ایم سے لڑنا ہوگا. ایم ایل سی ڈاکٹر خالد انور نے گجرات انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گجرات میں کس طرح اسدالدین اویسی گھڑیالی آنسو بہا کر ووٹ لینے کی کوشش کی. بہار میں مسلمانوں کی سیاست پر نظر ڈالیں تو 17 فیصد آبادی پر مشتمل مسلمان گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا آ رہا ہے۔ کبھی کانگریس کا ووٹ بینک رہا تو کبھی لالو پرساد کو اپنا مسیحا سمجھا، حالانکہ لالو پرساد نے M اور Y یعنی مسلم اور یادو کا اتحاد بنا کر ریاست میں پندرہ سالوں تک حکومت کی مگر سیاسی اعتبار سے کبھی مناسب حصہ داری نہیں ملی، جبکہ موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کے اقتدار میں مسلمانوں کی فلاح کے لئے کئی قابل ذکر کام ہوئے، مگر اقلیتی طبقہ کے حوالے سے نتیش کمار کے حالیہ چند برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کو مایوسی نظر آتی ہے، گزشتہ چار برسوں سے بہار اردو اکادمی کا عہدہ خالی ہے، مدرسہ بورڈ کے چیئرمین شپ خالی ہے، اردو مشاورتی بورڈ اور اقلیتی کمیشن تحلیل ہے، ہزاروں اردو ٹی ای ٹی اساتذہ نوکری کے لئے بھٹک رہے ہیں، اس کے باوجود نتیش کمار کے قریبی مسلم لیڈران مسلم مسائل کو ہیش کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں یا پرہیز کر رہے ہیں۔

اب جبکہ ان مسائل کو اویسی کی پارٹی مضبوطی سے اٹھانے کی کوشش کر ہی ہے تب جدیو اسے پوری طرح ناکارتے ہوئے بی جے پی کی B ٹیم بتا رہی ہے، جدیو کے سینئر رہنما افضل عباس کہتے ہیں ایم آئی ایم کو بھاجپا ہتھیار بنا کر ووٹ کاٹنے کی سیاست کر رہی ہے. 2015 سے بہار کی سیاست میں قدم رکھنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین مسلم اکثریتی علاقوں خطہ سیمانچل سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا مگر کامیابی 2019 کے ضمنی انتخاب میں ملی، ایم آئی ایم یوتھ کے ریاستی صدر جدیو کے بیان پر پلٹوار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ 17 سالوں میں بہار میں بھاجپا کو مضبوط کس نے کیا؟ ہم مسلمانوں کے حقوق اور مسائل سے آگاہ کرنے آئے ہیں.

گزشتہ کے کئی انتخاب میں جہاں سے عظیم اتحاد امیدواروں کی شکست ہوئی ہے، سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے ہوئے حملہ آور ہوتی ہے جبکہ خود بھاجپا عظیم اتحاد کو مسلمانوں کی حصہ داری دیتے ہوئے ایم آئی ایم کو اتحاد میں شامل کرنے کی بات کہتی ہے. آنے والے دنوں میں ملک کا پارلیمانی انتخاب 2024 اور بہار کا 2025 اسمبلی انتخاب کئی معنوں میں اہم ثابت ہو سکتا ہے، سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر صفدر امام قادری کہتے ہیں بہار کی سیاست میں ایم آئی ایم پوری طرح سے جڑ مضبوط کر چکی ہے، جو آنے والے انتخابات میں اثر انداز ہوگی جس کا سیدھا فائدہ بھاجپا کو ہوگا.

بہار کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی راشد احمد کہتے ہیں کہ جمہوریت میں ہر ایک کو عوام کے سامنے جانے اور ووٹ مانگنے کا حق ہے۔ ایم آئی ایم کی قیادت نے اپنے اسی جمہوری حق کو استعمال کر تے ہوئے بہار کی عوام کے درمیان جا کر ان کے مسائل کے حل کے لئے انتخابی سیاست کو آ زما رہی ہے۔ یہاں سیکولر امیدوار کیوں بی جے پی یا جے ڈی یو کے مقا بل نہیں ٹِک سکے؟ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بہار میں جب 16فیصد مسلمان ہیں تو پھر ان کی آبادی کے تناسب سے کیا یہ پارٹیاں مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دیتی رہیں۔ کوئی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے مسلمانوں کو ان کی آ بادی کے لحاظ سے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کا حصہ دیا ہو۔

کیا واقعی ایم آئی ایم کا وسیع ہوتا دائرہ دوسری پارٹیوں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوگا؟ مسلمانوں کے تئیں غفلت برتنے والی حکومت اب جاگ چکی ہے؟ فلاح و بہبود کے لیے زیرالتوا درجنوں مسائل کا اب سد باب ہوگا؟ یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب آئندہ کچھ دنوں میں ملنے کی توقع کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں:بہار اسمبلی انتخابات 2020: اے آئی ایم آئی ایم کا سیمانچل میں کیا رول رہا؟

ایم آئی ایم

گزشتہ چند برسوں سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کی سیاست میں سرخیوں میں رہی ہے، حالیہ دنوں گوپال گنج اور کڑھنی کے ضمنی انتخاب نے عظیم اتحاد کے اعلیٰ لیڈران کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا مسلم ووٹوں پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لئے 2024 پارلیمانی انتخاب اور پھر 2025 میں اسمبلی انتخاب آسان نہیں ہوگا؟ گزشتہ دنوں سی ایم ہاؤس میں جس طرح وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے پارٹی کے مسلم لیڈران و کارکنان کو ایم آئی ایم کے بڑھ رہے دائرہ کو روکنے کے لئے جو سبق پڑھایا ہے، سیاسی گلیاروں میں اس کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں، گزشتہ دو انتخاب میں شکست کی اصل وجہ ایم آئی ایم کو بتاتے ہوئے نتیش کمار آنے والے انتخاب میں ہوشیار اور خبردار رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ Nitish Kumar's Advice to Muslim Leaders

میٹنگ میں جدیو لیڈران نے ایم آئی ایم کے خلاف زبردست تقریریں کیں اور کہا کہ ملک کو بچانے کے لیے بھاجپا اور ایم آئی ایم سے لڑنا ہوگا. ایم ایل سی ڈاکٹر خالد انور نے گجرات انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گجرات میں کس طرح اسدالدین اویسی گھڑیالی آنسو بہا کر ووٹ لینے کی کوشش کی. بہار میں مسلمانوں کی سیاست پر نظر ڈالیں تو 17 فیصد آبادی پر مشتمل مسلمان گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا آ رہا ہے۔ کبھی کانگریس کا ووٹ بینک رہا تو کبھی لالو پرساد کو اپنا مسیحا سمجھا، حالانکہ لالو پرساد نے M اور Y یعنی مسلم اور یادو کا اتحاد بنا کر ریاست میں پندرہ سالوں تک حکومت کی مگر سیاسی اعتبار سے کبھی مناسب حصہ داری نہیں ملی، جبکہ موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کے اقتدار میں مسلمانوں کی فلاح کے لئے کئی قابل ذکر کام ہوئے، مگر اقلیتی طبقہ کے حوالے سے نتیش کمار کے حالیہ چند برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کو مایوسی نظر آتی ہے، گزشتہ چار برسوں سے بہار اردو اکادمی کا عہدہ خالی ہے، مدرسہ بورڈ کے چیئرمین شپ خالی ہے، اردو مشاورتی بورڈ اور اقلیتی کمیشن تحلیل ہے، ہزاروں اردو ٹی ای ٹی اساتذہ نوکری کے لئے بھٹک رہے ہیں، اس کے باوجود نتیش کمار کے قریبی مسلم لیڈران مسلم مسائل کو ہیش کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں یا پرہیز کر رہے ہیں۔

اب جبکہ ان مسائل کو اویسی کی پارٹی مضبوطی سے اٹھانے کی کوشش کر ہی ہے تب جدیو اسے پوری طرح ناکارتے ہوئے بی جے پی کی B ٹیم بتا رہی ہے، جدیو کے سینئر رہنما افضل عباس کہتے ہیں ایم آئی ایم کو بھاجپا ہتھیار بنا کر ووٹ کاٹنے کی سیاست کر رہی ہے. 2015 سے بہار کی سیاست میں قدم رکھنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین مسلم اکثریتی علاقوں خطہ سیمانچل سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا مگر کامیابی 2019 کے ضمنی انتخاب میں ملی، ایم آئی ایم یوتھ کے ریاستی صدر جدیو کے بیان پر پلٹوار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ 17 سالوں میں بہار میں بھاجپا کو مضبوط کس نے کیا؟ ہم مسلمانوں کے حقوق اور مسائل سے آگاہ کرنے آئے ہیں.

گزشتہ کے کئی انتخاب میں جہاں سے عظیم اتحاد امیدواروں کی شکست ہوئی ہے، سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے ہوئے حملہ آور ہوتی ہے جبکہ خود بھاجپا عظیم اتحاد کو مسلمانوں کی حصہ داری دیتے ہوئے ایم آئی ایم کو اتحاد میں شامل کرنے کی بات کہتی ہے. آنے والے دنوں میں ملک کا پارلیمانی انتخاب 2024 اور بہار کا 2025 اسمبلی انتخاب کئی معنوں میں اہم ثابت ہو سکتا ہے، سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر صفدر امام قادری کہتے ہیں بہار کی سیاست میں ایم آئی ایم پوری طرح سے جڑ مضبوط کر چکی ہے، جو آنے والے انتخابات میں اثر انداز ہوگی جس کا سیدھا فائدہ بھاجپا کو ہوگا.

بہار کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی راشد احمد کہتے ہیں کہ جمہوریت میں ہر ایک کو عوام کے سامنے جانے اور ووٹ مانگنے کا حق ہے۔ ایم آئی ایم کی قیادت نے اپنے اسی جمہوری حق کو استعمال کر تے ہوئے بہار کی عوام کے درمیان جا کر ان کے مسائل کے حل کے لئے انتخابی سیاست کو آ زما رہی ہے۔ یہاں سیکولر امیدوار کیوں بی جے پی یا جے ڈی یو کے مقا بل نہیں ٹِک سکے؟ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بہار میں جب 16فیصد مسلمان ہیں تو پھر ان کی آبادی کے تناسب سے کیا یہ پارٹیاں مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دیتی رہیں۔ کوئی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے مسلمانوں کو ان کی آ بادی کے لحاظ سے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کا حصہ دیا ہو۔

کیا واقعی ایم آئی ایم کا وسیع ہوتا دائرہ دوسری پارٹیوں کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوگا؟ مسلمانوں کے تئیں غفلت برتنے والی حکومت اب جاگ چکی ہے؟ فلاح و بہبود کے لیے زیرالتوا درجنوں مسائل کا اب سد باب ہوگا؟ یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب آئندہ کچھ دنوں میں ملنے کی توقع کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں:بہار اسمبلی انتخابات 2020: اے آئی ایم آئی ایم کا سیمانچل میں کیا رول رہا؟

Last Updated : Jan 6, 2023, 6:11 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.