ریاست بہار اور ریاست جھارکھنڈ کی سرحد پر واقع گھوری گھاٹ ہے، گیا شہر سے اس کی دوری محض 72 کلو میٹر بذریعہ سڑک ہے۔
مدرسہ اسلامیہ عربیہ میں امیرشریعت مولانانظام الدین ہال کا علمائے کرام اور معززحضرات کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا ہے۔
اس موقع پر افتتاحی تقریب کابھی اہتمام ہوا جس میں طول و عرض کے عام وخاص افراد شریک ہوئے ۔
مزید پڑھیں:تیجسوی یادو کی نو منتخب ایم ایل ایز کو نصیحت
امارت شریعہ کے سابق امیر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق سکریٹری مولانا سید نظام الدین کی یاد میں ایک عظیم ہال کا افتتاح ہوا ہے۔
مولانا سید نظام الدین کے آبائی گاؤں کے مدرسہ میں اس ہال کی تعمیر کرائی گئی ہے۔
اس کے اخراجات مولانا سید نظام الدین کے صاحبزدگان اور ان کے رفقاء اور اطراف کے لوگوں نے بطور تعاون برداشت کیا ہے۔
اس موقع پر افتتاحی تقریب کابھی اہتمام ہوا۔
اس میں مولانا سید نظام الدین کے بڑے صاحبزادے سید ضیاء الحسن، چھوٹے صاحبزادے مولانا پروفیسر ڈاکٹر سیدعبدالواحدندوی بحیثیت خصوصی مہمان شریک ہوئے۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید عبدالواحد ندوی نے کہا کہ چونکہ گھوریگھاٹ کاعلاقہ سرحدی اور پچھڑا علاقہ ہے جس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیشہ والد محترم مولانا سید نظام الدین کوشاں تھے۔
خاص طور پر اس علاقے میں علم کی شمع روشن کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے۔
اپنی سرپرستی و قیادت میں 40 برس قبل مدرسہ اسلامیہ عربیہ گھوری گھاٹ کا وجود عمل میں لایا۔
یہاں سے ہزاروں طلباء دینی و عصری تعلیم حاصل کرکے ملک و بیرونی ممالک میں اپنی ریاست وملک اور خاندان کا نام روشن کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کے نیک بندے دراندیشی سے کام لیتے ہیں جس وقت مدرسہ کا افتتاح ہوا اس وقت گھوری گھاٹ کے علاقے میں دن میں بھی آنا بڑا مشکل تھا۔
اس کی وجہ اول تویہ تھی کہ یہاں آنے کے لیے پختہ سڑکیں نہیں تھی، ندی پر پل نہیں تھا جوکہ آج بھی نہیں ہے۔
تاہم آج اتنی سہولت ہے کہ پختہ سڑکوں کے ساتھ دوسری جانب سے سفر طے کرکے بآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ علاقہ نکسلیوں کی بھی آماجگاہ رہی ہے۔
اس وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کچھ برسوں بعد یہ علاقہ خوشحال ہوگا اور قائم کردہ ادارہ اپنی منفرد پہچان بنائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بزرگوں کی یہی پہچان ہے کہ وہ مستقبل کو بھی دیکھ کر پلان کرتے ہیں۔
انہوں نے دینی و عصری دونوں تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علم کی وجہ کر ہی علاقے میں خوشحال لوٹی ہے۔
گھوری گھاٹ اور اطراف کے نوجوان آج ملک اور بیرونی ممالک میں اچھی نوکریاں کررہے ہیں اور وہ یہ اسلئے ممکن ہوسکا ہے کہ کیونکہ یہاں کے بچوں نے تعلیم پر توجہ دی ہے۔
علم ہی اندھیرے کو ختم کرکے اجالا کرتا ہے ، تابناک مستقبل کے لئے علم بے حد ضروری ہے اور اہم بات یہ ہے کہ جس طرح سے آج عصری تعلیم ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اس موقع پر پر سید ضیاء الحسن نے کہا کہ یہاں مدرسہ میں ڈھائی تین سو بچوں کا ہاسٹل میں ہونے کی وجہ سے ایک اور بڑے ہال کی ضرورت تھی جوکہ آج پوری ہوگئی ہے۔
حالاں کہ ابھی کورونا وبا کی وجہ سے مدرسہ میں مستقل تعلیم پر اثر پڑا ہے ۔
گھوری گھاٹ گاوں مولانا سید نظام الدین کا آبائی گاؤں ہے۔
یہاں مولانا سید نظام الدین نے اسی کی دہائی میں مدرسہ اسلامیہ عربیہ کا قیام اسوقت وجود میں لایا تھا جب چترا ضلع بہار میں تھا۔
مدرسہ اسلامیہ عربیہ قریب ایک بیگہ میں پھیلا ہوا ہے۔مدرسہ سے متصل ایک عظیم الشان مسجد بھی ہے۔