ETV Bharat / state

گیا : شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ تاریخ کے آئینے میں - گیا کا شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ

ریاست بہار کے ضلع گیا کے شیر گھاٹی اسمبلی حلقہ سے تین مرتبہ مسلم امیدوار اپنی جیت درج کرواچکے ہیں لیکن ۔سنہ 2010 میں دوبارہ شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ بننے کے بعد سے یہاں سے کوئی بھی مسلم امیدوار جیت حاصل نہیں کرپایا ہے، لیکن اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس بار اس حلقہ سے جن ادھیکارپارٹی کے امیدوار عمیر خان فتح حاصل کرسکتے ہیں

گیا : شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ تاریخ کے آئینے میں
گیا : شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ تاریخ کے آئینے میں
author img

By

Published : Sep 25, 2020, 2:18 PM IST

ضلع گیا کا شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ 2010 میں بننے کے فوری بعد اس وقت سرخیوں میں آیاتھا ۔جب اسوقت کے قدآوررہنماء اور آرجے ڈی امیدوار مرحوم شکیل احمدخان کو انکی ہی پارٹی کے ایک باغی کارکن ونودپرساد یادو نے شکست دے دی تھی ۔اس سے پہلے شیرگھاٹی کو دوبارہ اپنا وجود حاصل کرنے میں 38 سال لگ گئے تھے ۔ نئی حد بندی کے بعد دوبارہ وجودمیں آئی شیرگھاٹی سیٹ پر پہلی مرتبہ 2010 میں ہوئے انتخاب سے لیکر اب تک جے ڈی یو کے ونودپرساد یادو کاقبضہ ہے ۔

شیرگھاٹی میں یادو اور مسلم ووٹ کے علاوہ پسماندہ ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے یہاں کی نوے فیصد آبادی دیہی علاقوں سے ہے ۔ شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ میں تین بلاک شیرگھاٹی، آمس اور ڈوبھی ہے ، اس اسمبلی حلقے میں ایک نگر پنچائت شیرگھاٹی ہے ۔ شکیل احمد خان کے بعد یہاں سے مسلم رہنماء تو انتخاب لڑے لیکن کسی پارٹی سے انکا تعلق نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ پانچ ہزار سے دس ہزار کے درمیان سمٹ گئے ۔

2015 کے انتخاب میں یہاں کے مسلمانوں نے جے ڈی یو کے ونود یادو کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیاتھا ۔ رواں برس کے انتخابات میں ابھی شیرگھاٹی اسمبلی حلقے سے این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن دونوں اتحاد کی طرف سے باضابطہ امیدوار کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن این ڈی اے کی طرف سے جے ڈی یو کے موجودہ رکن اسمبلی ونودیادو کا ہی امیدوار ہونا طئے ہے۔آرجے ڈی کی طرف سے کئی نام سامنے آنے کی بحث جاری ہے جس میں سے ایک ہندی سنیما میں ویلین کارول ادا کرنے والے علی خان کا بھی نام شامل ہے ۔اسکے علاوہ منجو اگروال ، بھگت یادو ، سید وسیم اکرم وغیرہ کے ناموں کابھی تذکرہ ہے ۔

شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ فتح کرنا اس مرتبہ ونود یادو کے لئے بھی آسان نہیں ہے کیونکہ یہاں سے سابق وزیر و قدآور لیڈر شکیل احمد خان کے بھانجہ عمیر احمد خان عرف ٹکا خان کی بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں ، عمیر خان جن ادھیکارپارٹی کے امیدوار ہیں، سالوں سے یہاں وہ انتخاب کے لئے محنت کررہے ہیں ۔عمیرخان فلحال بارہ چٹی سے ضلع پریشد کے رکن ہیں ۔

شیرگھاٹی سے اسلئے بھی انکی پکڑ مضبوط مانی جارہی ہے کیونکہ یہاں سے مسلمان اور دلت کی طرف سے مسلم امیدوار کا مطالبہ ہورہا ہے ۔کیونکہ کہا جارہا ہے کہ یہاں تین مرتبہ مسلم امیدوار ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جیت چکے ہیں۔

واضح ہوکہ شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ میں 1957 لیکر 1972 انتخاب ہوتے رہے تھے ۔1951 سے 1952 اس سیٹ کو شیرگھاٹی امام گنج کے طور پر پہچان ملی تھی ۔تب یہاں سے دو ایم ایل اے دیو دھاری چمار اور جگلال مہتو ایک بار جیتے تھے ۔ یہاں سے کپٹین شاہجہاں ، بابو مشتاق علی خان اور جے رام گری بھی جیتے تھے ۔سنہ 1977 میں شیرگھاٹی کو بودھ گیا محفوظ حلقہ کاحصہ بنادیا گیاتھا جسکے بعد 2010 میں اسے پھر سے شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ بنادیا گیا ہے۔ یہاں کل ووٹرز 267469ہیں، جس میں مسلم ووٹرز کی تعداد پچپن ہزار ہے ۔

کس نے کب یہاں سے فتح حاصل کی


کپٹین شاہجہاں نے سنہ 1957 میں کانگریس کی ٹکٹ پرجیت حاصل کی تھی۔ سنہ 1962 میں کانگریس کی ٹکٹ پر کپٹین شاہجہاں نے دوبارہ جیت حاصل کی ۔ سنہ 1967میں بابو مشتاق علی خان جے کے ڈی کی ٹکٹ پر جیت حاصل کی ۔ سنہ 1972 جے رام گیری نے کانگریس کی ٹکٹ پر جیت درج حاصل کیا تھا اسکے بعد سے یہ سیٹ ختم ہوگئی تھی۔

ضلع گیا کا شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ 2010 میں بننے کے فوری بعد اس وقت سرخیوں میں آیاتھا ۔جب اسوقت کے قدآوررہنماء اور آرجے ڈی امیدوار مرحوم شکیل احمدخان کو انکی ہی پارٹی کے ایک باغی کارکن ونودپرساد یادو نے شکست دے دی تھی ۔اس سے پہلے شیرگھاٹی کو دوبارہ اپنا وجود حاصل کرنے میں 38 سال لگ گئے تھے ۔ نئی حد بندی کے بعد دوبارہ وجودمیں آئی شیرگھاٹی سیٹ پر پہلی مرتبہ 2010 میں ہوئے انتخاب سے لیکر اب تک جے ڈی یو کے ونودپرساد یادو کاقبضہ ہے ۔

شیرگھاٹی میں یادو اور مسلم ووٹ کے علاوہ پسماندہ ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے یہاں کی نوے فیصد آبادی دیہی علاقوں سے ہے ۔ شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ میں تین بلاک شیرگھاٹی، آمس اور ڈوبھی ہے ، اس اسمبلی حلقے میں ایک نگر پنچائت شیرگھاٹی ہے ۔ شکیل احمد خان کے بعد یہاں سے مسلم رہنماء تو انتخاب لڑے لیکن کسی پارٹی سے انکا تعلق نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ پانچ ہزار سے دس ہزار کے درمیان سمٹ گئے ۔

2015 کے انتخاب میں یہاں کے مسلمانوں نے جے ڈی یو کے ونود یادو کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیاتھا ۔ رواں برس کے انتخابات میں ابھی شیرگھاٹی اسمبلی حلقے سے این ڈی اے اور مہاگٹھ بندھن دونوں اتحاد کی طرف سے باضابطہ امیدوار کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن این ڈی اے کی طرف سے جے ڈی یو کے موجودہ رکن اسمبلی ونودیادو کا ہی امیدوار ہونا طئے ہے۔آرجے ڈی کی طرف سے کئی نام سامنے آنے کی بحث جاری ہے جس میں سے ایک ہندی سنیما میں ویلین کارول ادا کرنے والے علی خان کا بھی نام شامل ہے ۔اسکے علاوہ منجو اگروال ، بھگت یادو ، سید وسیم اکرم وغیرہ کے ناموں کابھی تذکرہ ہے ۔

شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ فتح کرنا اس مرتبہ ونود یادو کے لئے بھی آسان نہیں ہے کیونکہ یہاں سے سابق وزیر و قدآور لیڈر شکیل احمد خان کے بھانجہ عمیر احمد خان عرف ٹکا خان کی بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں ، عمیر خان جن ادھیکارپارٹی کے امیدوار ہیں، سالوں سے یہاں وہ انتخاب کے لئے محنت کررہے ہیں ۔عمیرخان فلحال بارہ چٹی سے ضلع پریشد کے رکن ہیں ۔

شیرگھاٹی سے اسلئے بھی انکی پکڑ مضبوط مانی جارہی ہے کیونکہ یہاں سے مسلمان اور دلت کی طرف سے مسلم امیدوار کا مطالبہ ہورہا ہے ۔کیونکہ کہا جارہا ہے کہ یہاں تین مرتبہ مسلم امیدوار ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جیت چکے ہیں۔

واضح ہوکہ شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ میں 1957 لیکر 1972 انتخاب ہوتے رہے تھے ۔1951 سے 1952 اس سیٹ کو شیرگھاٹی امام گنج کے طور پر پہچان ملی تھی ۔تب یہاں سے دو ایم ایل اے دیو دھاری چمار اور جگلال مہتو ایک بار جیتے تھے ۔ یہاں سے کپٹین شاہجہاں ، بابو مشتاق علی خان اور جے رام گری بھی جیتے تھے ۔سنہ 1977 میں شیرگھاٹی کو بودھ گیا محفوظ حلقہ کاحصہ بنادیا گیاتھا جسکے بعد 2010 میں اسے پھر سے شیرگھاٹی اسمبلی حلقہ بنادیا گیا ہے۔ یہاں کل ووٹرز 267469ہیں، جس میں مسلم ووٹرز کی تعداد پچپن ہزار ہے ۔

کس نے کب یہاں سے فتح حاصل کی


کپٹین شاہجہاں نے سنہ 1957 میں کانگریس کی ٹکٹ پرجیت حاصل کی تھی۔ سنہ 1962 میں کانگریس کی ٹکٹ پر کپٹین شاہجہاں نے دوبارہ جیت حاصل کی ۔ سنہ 1967میں بابو مشتاق علی خان جے کے ڈی کی ٹکٹ پر جیت حاصل کی ۔ سنہ 1972 جے رام گیری نے کانگریس کی ٹکٹ پر جیت درج حاصل کیا تھا اسکے بعد سے یہ سیٹ ختم ہوگئی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.