ETV Bharat / state

Bihar Caste Census پٹنہ ہائی کورٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

author img

By

Published : Jul 7, 2023, 5:22 PM IST

بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کے حوالے سے پٹنہ ہائی کورٹ میں سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ توقع ہے کہ جلد ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ پوری خبر پڑھیں۔۔۔

پٹنہ ہائی کورٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
پٹنہ ہائی کورٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

پٹنہ: بہار حکومت کے ذریعہ ریاست میں ذات پر مبنی سروے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر پٹنہ ہائی کورٹ میں سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اس معاملے میں دائر درخواستوں پر چیف جسٹس کے وی چندرن کی ڈویژن بنچ نے لگاتار پانچ دن تک سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی نے ریاستی حکومت کی جانب سے عدالت کے سامنے کیس پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سروے ہے، جس کا مقصد عام شہریوں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے، جسے ان کی فلاح و بہبود اور مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے یا نوکری لینے کے وقت ذات سے متعلق معلومات بھی دی جاتی ہیں۔

ایڈوکیٹ شاہی نے کہا کہ ذاتیں سماج کا حصہ ہیں۔ ہر مذہب میں مختلف ذاتیں ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس سروے کے دوران کسی کو کسی بھی قسم کی لازمی معلومات دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ذات کے سروے کا تقریباً 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس طرح کا سروے ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سروے سے کسی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل شاہی نے کہا کہ بہت ساری معلومات پہلے ہی پبلک ہیں۔ قبل ازیں ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم دیتے ہوئے ریاستی حکومت کے ذریعہ کرائے جارہے ذات پات اور اقتصادی سروے پر روک لگا دی تھی۔ عدالت نے جاننا چاہا کہ کیا ذاتوں کی بنیاد پر مردم شماری اور معاشی سروے کرانا قانونی ذمہ داری ہے؟

عدالت نے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ حق ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں۔ یہ بھی جاننے کے لیے کہ اس سے رازداری کی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں۔ اس سے قبل کی سماعت میں، درخواست گزار کے وکیل ابھینو سریواستو نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاستی حکومت ذات اور اقتصادی سروے کر رہی ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے وکیل دنو کمار نے بتایا کہ سروے کرانے کا یہ حق ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ غیر آئینی اور برابری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

ایڈوکیٹ دنو کمار نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ریاستی حکومت ذات پر مبنی سروے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ دفعات کے تحت اس طرح کا سروے مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔ یہ مرکزی حکومت کے اختیار میں آتا ہے۔ ریاستی حکومت اس سروے کے لیے پانچ سو کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس معاملے پر سماعت کے دوران، درخواست گزاروں کی طرف سے ایڈوکیٹ دنو کمار، ریتیکا رانی، ابھینو سریواستو اور ریاستی حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی نے فریقین کو عدالت میں پیش کیا۔ وہیں اس معاملے پر سپریم کورٹ میں 14 جولائی 2023 کو سماعت ہونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ذات پر مبنی مردم شماری سے وزیراعظم کیوں ڈر رہے ہیں: علی انور انصاری

پٹنہ: بہار حکومت کے ذریعہ ریاست میں ذات پر مبنی سروے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر پٹنہ ہائی کورٹ میں سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اس معاملے میں دائر درخواستوں پر چیف جسٹس کے وی چندرن کی ڈویژن بنچ نے لگاتار پانچ دن تک سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی نے ریاستی حکومت کی جانب سے عدالت کے سامنے کیس پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سروے ہے، جس کا مقصد عام شہریوں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے، جسے ان کی فلاح و بہبود اور مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے یا نوکری لینے کے وقت ذات سے متعلق معلومات بھی دی جاتی ہیں۔

ایڈوکیٹ شاہی نے کہا کہ ذاتیں سماج کا حصہ ہیں۔ ہر مذہب میں مختلف ذاتیں ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس سروے کے دوران کسی کو کسی بھی قسم کی لازمی معلومات دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ذات کے سروے کا تقریباً 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس طرح کا سروے ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سروے سے کسی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل شاہی نے کہا کہ بہت ساری معلومات پہلے ہی پبلک ہیں۔ قبل ازیں ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم دیتے ہوئے ریاستی حکومت کے ذریعہ کرائے جارہے ذات پات اور اقتصادی سروے پر روک لگا دی تھی۔ عدالت نے جاننا چاہا کہ کیا ذاتوں کی بنیاد پر مردم شماری اور معاشی سروے کرانا قانونی ذمہ داری ہے؟

عدالت نے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ حق ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں۔ یہ بھی جاننے کے لیے کہ اس سے رازداری کی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں۔ اس سے قبل کی سماعت میں، درخواست گزار کے وکیل ابھینو سریواستو نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاستی حکومت ذات اور اقتصادی سروے کر رہی ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے وکیل دنو کمار نے بتایا کہ سروے کرانے کا یہ حق ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ غیر آئینی اور برابری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

ایڈوکیٹ دنو کمار نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ریاستی حکومت ذات پر مبنی سروے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئینی دفعات کے خلاف ہے۔ دفعات کے تحت اس طرح کا سروے مرکزی حکومت کر سکتی ہے۔ یہ مرکزی حکومت کے اختیار میں آتا ہے۔ ریاستی حکومت اس سروے کے لیے پانچ سو کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس معاملے پر سماعت کے دوران، درخواست گزاروں کی طرف سے ایڈوکیٹ دنو کمار، ریتیکا رانی، ابھینو سریواستو اور ریاستی حکومت کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل پی کے شاہی نے فریقین کو عدالت میں پیش کیا۔ وہیں اس معاملے پر سپریم کورٹ میں 14 جولائی 2023 کو سماعت ہونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ذات پر مبنی مردم شماری سے وزیراعظم کیوں ڈر رہے ہیں: علی انور انصاری

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.