ETV Bharat / state

Muslim Families Making the Tricolor قومی پرچم ترنگا کو بنانے میں مسلم خاندان فخرمحسوس کرتاہے - مسلم کنبہ ترنگا بنانے میں مصروف

گیا میں کئی مسلم خاندان ایسے ہیں جو آزادی کے بعد سے تاحال قومی پرچم ' ترنگا ' کی سلائی اور چھپائی کے کاموں سے وابستہ ہیں۔ نسل در نسل ترنگا کا کام کرکے یہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنے گھر کے نوجوانوں کو بھی ترنگا کو سلنے اور اس پر اشوک چکر چھاپنے کی تربیت دے چکے ہیں۔Made the tricolor for many decades

گیا
گیا
author img

By

Published : Jan 20, 2023, 9:59 PM IST

Updated : Jan 21, 2023, 7:35 PM IST

ریاست بہار کے ضلع گیا میں یوم جمہوریہ کی تیاریاں زوروں پر ہے۔ یہاں کا کئی مسلم کنبہ قومی پرچم ترنگے کی سلائی اور اس میں 'اشوک چکر کی چھپائی ' میں مصروف ہے۔ یہ سبھی خاندان گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں، اور وہ اس کام کو انجام دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی مسلم کاریگروں سے ترنگابنانے کے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے خصوصی گفتگو کی ہے ۔

مسلم خاندان

ان مسلم کاریگروں میں گیا مانپور کے رہنے والے ایک 55 سال کے محمد غلام مصطفی نے کہا کہ ' اپنے ملک بھارت کی شان سے وابستہ کاموں کو انجام دینا انکے لیے باعث فخر ہے ، 40 برسوں سے وہ ترنگے کی سلائی اور اس کے کپڑوں کی کٹنگ کررہے ہیں جبکہ اس سے پہلے انکے والد اس کام کو انجام دیتے تھے انہوں نے اپنے والد سے سلائی کے کام کو سیکھا ہے۔ محمد غلام مصطفی ' کھادی گرام ادھیوگ مانپور ' میں کام کرتے ہیں اور وہ یہاں کے بہترین سلائی اور کٹنگ ماسٹر ہیں ۔ غلام مصطفی کے ذریعہ ترنگا کی سلائی کے بعد کھادی گرام ادھیوگ سے تیار ترنگا مگدھ کمشنری کے پانچوں اضلاع میں پہنچتا ہے اور پرچم کشائی ہوتی ہے۔ یہاں کھادی گرام ادھیوگ میں کام کرنے پر غلام مصطفی کو عدد کے حساب سے مزدوری ملتی ہے ، پندرہ اگست اور 26جنوری کے موقع پر ہردن انکی آمدنی 500سے 600 روپیے تک ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے چالیس سال کے کام کے دوران کبھی بھی اس کام کو اس سے ملنے والی رقم سے موازنہ نہیں کیا اور خوشی ورضامندی کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ والد سے انہوں نے آزادی کی تحریک کے تعلق سے باتیں سنی ہیں کہ کس طرح سے آبا واجداد کی قربانیوں کے بعد آزادی ملی ہے ، وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن گھر میں تربیت ملی ہے کہ ترنگا ہمارے ملک کی شان اور ہندوستانیوں کا فخر ہے اس لیے اس کام کو وہ زندگی بھر اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک انکے جسم میں کام کرنے کی صلاحیت باقی رہے گی ایسے میں مزدوری کے کم وبیش کا کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیس برس قبل تو سوروپیے کی بھی آمدنی نہیں تھی باوجودکہ وہ اس کام میں لگے رہتے تھے کیونکہ یہ انکے حب الوطنی کا بھی تقاضہ ہے ۔


غلام مصطفی اور انکے رشتے دار یہاں یوم جمہوریہ کے موقع پر اس برس 10 ہزار عدد سے زیادہ پرچم ترنگا تیار کرچکے ہیں ، مزید کام جاری ہے جبکہ بقیہ ایام میں بھی وہ کھادی گرام ادھیوگ میں ترنگا کے ساتھ گاندھی ٹوپی ، نہرو صدری اور کھادی کے شرٹ پینٹ کی سلائی وکٹنگ کرتے ہیں۔

غلام مصطفی بتاتے ہیں انہیں ترنگا کی سلائی کا کام وراثت میں ملا ہے اور انہوں نے اپنی وراثت کو اپنے ایک بیٹا جسکا نام محمد راجا ہے اسے سپرد کیا ہے ، راجا بھی بڑی شان اور فخر سے ترنگا کی سلائی کرتا ہے ، غلام مصطفی کہتے ہیں کہ ترنگا ہماری پہچان اور نشان ہے ہم یہاں کے باشندہ ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے دل وجان سے چاہیں اور محبت کریں ۔

غلام مصطفی کے مطابق انکا کنبہ آزادی کے بعد سے ہی قومی پرچم کی سلائی میں مصروف ہے جبکہ ایک اور دوسرے سلائی کے کاریگر محمدمصطفی نے بھی اسی طرح قومی پرچم سے محبت کا اظہار کیا اور کہاکہ اس سے انکی روزی روٹی بھی وابستہ ہے اور انکی آمدنی کا ذریعہ بھی یہی ہے۔ 40 سال کے محمدمصطفی قریب آٹھ برسوں سے قومی پرچم کی سلائی کررہے ہیں کھادی گرام ادھیوگ سینٹر مانپور میں غلام مصطفی کے ساتھ تین اور مسلم نوجوان ترنگا سل رہے ہیں ۔


جبکہ ایک دوسرا مسلم کنبہ جو کھادی گرام ادھیوگ سے سلے ہوئے' ترنگا ' پر اہم نشان " اشوک چکر " کی چھپائی کرتا ہے ۔گیا شہر میں واقع معروف گنج محلہ کی سیماپروین اور انکے اہل خانہ بھی کئی دہائیوں سےاشوک چکر چھاپنے کے کام کو انجام دے رہاہے۔ سیماپروین کی تیسری نسل تک یہ کام پہنچ چکا ہے ، پہلے انکے سسر کام کرتے تھے اب انکے شوہر محمد شمیم اور انکے بچے محمد صدام ، محمد نواب اور محمد شارخ اشوک چکر چھاپنے کا کام کرتے ہیں۔

سیما پروین کے مطابق انکے سسر کے انتقال کے بعد انکے شوہر محمد شمیم نے چکر چھاپنے کی روایت کو آگے بڑھایا ہے سیماپروین نے کہاکہ انکے یہاں بلاتفریق لوگ آتے ہیں اور شان کے ساتھ ترنگا لے کرجاتے ہیں کچھ لوگ الجھاکر سازش کرتے ہیں جبکہ حقیقت ہے کہ مسلمان آج بھی اسی شدت کے ساتھ ملک کی شان اور نگہبانی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔

واضح رہے ضلع گیا کے ' کھادی گرام ادھیوگ مانپور' سے ہزاروں کی تعداد میں ترنگا بنتا ہے اور یہاں کھادی کے کپڑے سے تیار ترنگا ضلع گیا کے علاوہ نوادہ ، اورنگ آباد، جہان آباد ، ارول اور دوسرے اضلاع میں جاتا ہے۔ کھادی سے تیار کردہ ترنگے کی آج بھی مانگ ہے سیماپروین اور محمد مصطفی کے مطابق نئی مشینوں اور پولیسٹر کپڑے سے تیار شدہ ترنگے کی مانگ تو ہے لیکن وہ آج تک کھادی کے مقابلے میں نہیں آیا ہے یہی وجہ ہے کہ کھادی سے تیار ترنگے کے شوقین یہاں آج بھی کثرت سے ہیں۔ ان مسلم کاریگروں کے جذبے کو کھادی گرام ادھیوگ سمیتی کے افراد بھی سراہتے ہیں کھادی گرام ادھیوگ سمیتی کے سکریٹری سنیل کمار کہتے ہیں غلام مصطفی تو برسوں سے یہاں کام کررہے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مگدھ کمشنری کے پانچوں ضلعوں میں ہرایک ضلع سے اوسطا تین ہزار ترنگا کی مانگ ہے جسے یہی کاریگر پورا کرتے ہیں ، کھادی سینٹر میں چار سائز کا ترنگا بنتا ہے جسکی قیمت الگ الگ ہے ۔

مزید پڑھیں:Azadi Ka Amrut Mahotsav: مسلم تنظیم نے 75 ہزارترنگا تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا

ریاست بہار کے ضلع گیا میں یوم جمہوریہ کی تیاریاں زوروں پر ہے۔ یہاں کا کئی مسلم کنبہ قومی پرچم ترنگے کی سلائی اور اس میں 'اشوک چکر کی چھپائی ' میں مصروف ہے۔ یہ سبھی خاندان گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں، اور وہ اس کام کو انجام دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی مسلم کاریگروں سے ترنگابنانے کے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے خصوصی گفتگو کی ہے ۔

مسلم خاندان

ان مسلم کاریگروں میں گیا مانپور کے رہنے والے ایک 55 سال کے محمد غلام مصطفی نے کہا کہ ' اپنے ملک بھارت کی شان سے وابستہ کاموں کو انجام دینا انکے لیے باعث فخر ہے ، 40 برسوں سے وہ ترنگے کی سلائی اور اس کے کپڑوں کی کٹنگ کررہے ہیں جبکہ اس سے پہلے انکے والد اس کام کو انجام دیتے تھے انہوں نے اپنے والد سے سلائی کے کام کو سیکھا ہے۔ محمد غلام مصطفی ' کھادی گرام ادھیوگ مانپور ' میں کام کرتے ہیں اور وہ یہاں کے بہترین سلائی اور کٹنگ ماسٹر ہیں ۔ غلام مصطفی کے ذریعہ ترنگا کی سلائی کے بعد کھادی گرام ادھیوگ سے تیار ترنگا مگدھ کمشنری کے پانچوں اضلاع میں پہنچتا ہے اور پرچم کشائی ہوتی ہے۔ یہاں کھادی گرام ادھیوگ میں کام کرنے پر غلام مصطفی کو عدد کے حساب سے مزدوری ملتی ہے ، پندرہ اگست اور 26جنوری کے موقع پر ہردن انکی آمدنی 500سے 600 روپیے تک ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے چالیس سال کے کام کے دوران کبھی بھی اس کام کو اس سے ملنے والی رقم سے موازنہ نہیں کیا اور خوشی ورضامندی کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ والد سے انہوں نے آزادی کی تحریک کے تعلق سے باتیں سنی ہیں کہ کس طرح سے آبا واجداد کی قربانیوں کے بعد آزادی ملی ہے ، وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن گھر میں تربیت ملی ہے کہ ترنگا ہمارے ملک کی شان اور ہندوستانیوں کا فخر ہے اس لیے اس کام کو وہ زندگی بھر اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک انکے جسم میں کام کرنے کی صلاحیت باقی رہے گی ایسے میں مزدوری کے کم وبیش کا کوئی معاملہ نہیں ہے ، بیس برس قبل تو سوروپیے کی بھی آمدنی نہیں تھی باوجودکہ وہ اس کام میں لگے رہتے تھے کیونکہ یہ انکے حب الوطنی کا بھی تقاضہ ہے ۔


غلام مصطفی اور انکے رشتے دار یہاں یوم جمہوریہ کے موقع پر اس برس 10 ہزار عدد سے زیادہ پرچم ترنگا تیار کرچکے ہیں ، مزید کام جاری ہے جبکہ بقیہ ایام میں بھی وہ کھادی گرام ادھیوگ میں ترنگا کے ساتھ گاندھی ٹوپی ، نہرو صدری اور کھادی کے شرٹ پینٹ کی سلائی وکٹنگ کرتے ہیں۔

غلام مصطفی بتاتے ہیں انہیں ترنگا کی سلائی کا کام وراثت میں ملا ہے اور انہوں نے اپنی وراثت کو اپنے ایک بیٹا جسکا نام محمد راجا ہے اسے سپرد کیا ہے ، راجا بھی بڑی شان اور فخر سے ترنگا کی سلائی کرتا ہے ، غلام مصطفی کہتے ہیں کہ ترنگا ہماری پہچان اور نشان ہے ہم یہاں کے باشندہ ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے دل وجان سے چاہیں اور محبت کریں ۔

غلام مصطفی کے مطابق انکا کنبہ آزادی کے بعد سے ہی قومی پرچم کی سلائی میں مصروف ہے جبکہ ایک اور دوسرے سلائی کے کاریگر محمدمصطفی نے بھی اسی طرح قومی پرچم سے محبت کا اظہار کیا اور کہاکہ اس سے انکی روزی روٹی بھی وابستہ ہے اور انکی آمدنی کا ذریعہ بھی یہی ہے۔ 40 سال کے محمدمصطفی قریب آٹھ برسوں سے قومی پرچم کی سلائی کررہے ہیں کھادی گرام ادھیوگ سینٹر مانپور میں غلام مصطفی کے ساتھ تین اور مسلم نوجوان ترنگا سل رہے ہیں ۔


جبکہ ایک دوسرا مسلم کنبہ جو کھادی گرام ادھیوگ سے سلے ہوئے' ترنگا ' پر اہم نشان " اشوک چکر " کی چھپائی کرتا ہے ۔گیا شہر میں واقع معروف گنج محلہ کی سیماپروین اور انکے اہل خانہ بھی کئی دہائیوں سےاشوک چکر چھاپنے کے کام کو انجام دے رہاہے۔ سیماپروین کی تیسری نسل تک یہ کام پہنچ چکا ہے ، پہلے انکے سسر کام کرتے تھے اب انکے شوہر محمد شمیم اور انکے بچے محمد صدام ، محمد نواب اور محمد شارخ اشوک چکر چھاپنے کا کام کرتے ہیں۔

سیما پروین کے مطابق انکے سسر کے انتقال کے بعد انکے شوہر محمد شمیم نے چکر چھاپنے کی روایت کو آگے بڑھایا ہے سیماپروین نے کہاکہ انکے یہاں بلاتفریق لوگ آتے ہیں اور شان کے ساتھ ترنگا لے کرجاتے ہیں کچھ لوگ الجھاکر سازش کرتے ہیں جبکہ حقیقت ہے کہ مسلمان آج بھی اسی شدت کے ساتھ ملک کی شان اور نگہبانی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔

واضح رہے ضلع گیا کے ' کھادی گرام ادھیوگ مانپور' سے ہزاروں کی تعداد میں ترنگا بنتا ہے اور یہاں کھادی کے کپڑے سے تیار ترنگا ضلع گیا کے علاوہ نوادہ ، اورنگ آباد، جہان آباد ، ارول اور دوسرے اضلاع میں جاتا ہے۔ کھادی سے تیار کردہ ترنگے کی آج بھی مانگ ہے سیماپروین اور محمد مصطفی کے مطابق نئی مشینوں اور پولیسٹر کپڑے سے تیار شدہ ترنگے کی مانگ تو ہے لیکن وہ آج تک کھادی کے مقابلے میں نہیں آیا ہے یہی وجہ ہے کہ کھادی سے تیار ترنگے کے شوقین یہاں آج بھی کثرت سے ہیں۔ ان مسلم کاریگروں کے جذبے کو کھادی گرام ادھیوگ سمیتی کے افراد بھی سراہتے ہیں کھادی گرام ادھیوگ سمیتی کے سکریٹری سنیل کمار کہتے ہیں غلام مصطفی تو برسوں سے یہاں کام کررہے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مگدھ کمشنری کے پانچوں ضلعوں میں ہرایک ضلع سے اوسطا تین ہزار ترنگا کی مانگ ہے جسے یہی کاریگر پورا کرتے ہیں ، کھادی سینٹر میں چار سائز کا ترنگا بنتا ہے جسکی قیمت الگ الگ ہے ۔

مزید پڑھیں:Azadi Ka Amrut Mahotsav: مسلم تنظیم نے 75 ہزارترنگا تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا

Last Updated : Jan 21, 2023, 7:35 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.