گیا کے شیر گھاٹی کی رہنے والی حلیمہ خاتون کا علاج اس باعث ممکن نہیں ہوسکا کہ ان کے آیوشمان کارڈ پر پرنٹنگ مِسٹیک(غلطی) ہے جہاں جنس کے کالم میں خاتون کی جگہ مرد لکھا ہوا ہے۔
جانچ پڑتال کے بعد یہ بات ظاہر ہوگی کہ آخر کس کی غلطی کی وجہ سسے ایسا ہوا اور مریضہ کو علاج نہیں مل سکا۔
آیوشمان کارڈ پر اس خامی کی اور غلطی کا خمیازہ 77 سالہ حلیمہ خاتون کو بھگتنا پڑا ہے اور ڈاکٹروں نے مفت علاج کرنے سے صاف منع کردیا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی آیوشمان کارڈ کو ڈیجیٹل بنانے کا اعلان کرچکے ہیں غریبوں کو آیوشمان کارڈ کے ذریعے بہتر علاج دستیاب کرانے کابھی دعویٰ کیا جاتا ہے تاہم دعووں سے جب پردہ اٹھتا ہے تو پاوں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے اور اسی کی ایک مثال بہار کے گیا میں دیکھی گئی۔
آیوشمان کارڈ میں ایک چھوٹی غلطی جو کارڈز ہولڈرز کی جانب سے ممکن نہیں ہے۔ زیادہ تر ناموں کی اسپیلنگ میں غلطیاں، باپ کے نام کی جگہ بیٹے کا نام، خاتون کی جگہ مرد کی تصویر یا کچھ اس طرح کے دیگر معاملات اکثر سبھی سرکاری دفاتر کے شناختی کارڈ یا پھر کاغذات میں نظر آجائیں گے لیکن اس کا خمیازہ کارڈ ہولڈر کو بھگتنا پڑتا ہے۔
دراصل گیا کے شیر گھاٹی سب ڈویژن کے بلیاری گاؤں کی بیمار خاتون کا اسمارٹ کارڈ دیکھ کر ہسپتال والوں نے بغیر پیسے کے علاج کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ کارڈ میں جنس کے کالم میں خاتون کی جگہ مرد لکھا ہوا تھا جس کے سبب وہ مفت علاج سے محروم کر دی گئیں۔
بلیاری گاؤں کی 77 سالہ حلیمہ خاتون نے حال ہی میں اپنا آیوشمان کارڈ بنوایا تھا۔ کچھ دنوں سے وہ دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں اور وہ علاج کے لیے جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی کے رِمس ہسپتال میں گزشتہ ایک ہفتے سے بھرتی ہیں۔
آیوشمان کارڈ پر غلطی کی نشاندہی کے بعد اس میں سدھار کے لیے رانچی سے گیا تک کے آیوشمان بھارت کے افسران سے رابطہ کیا گیا تاہم سبھی کے پاس سے جواب نہیں ملا۔
انہیں بتایا گیا کہ اس کارڈ کو سدھارنے کی کارروائی آسان نہیں ہے پہلے کارڈ کو رد کیا جائے گا اور اس کے بعد دوبارہ سے اس کی جانچ کرکے بنانے کی کارروائی کی جائے گی لیکن اس غلطی کی وجہ سے مریضہ کی جان خطرے میں ہے۔