اس راستے سے یومیہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہر آتے جاتے ہیں علاوہ ازیں طلباء بھی اسکول آنے جانے کے لیے اسی راستے کو مجبوراً اختیار کرتے ہیں، یہاں پر کوڑا کچرا اور غلاظتوں کے علاوہ مردہ جانور اور سڑی گلی چیزیں بھی ڈال دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس راستہ سے اس قدر بدبو اور تعفن آتی ہے کہ آمد و رفت کے دوران ناک بند کر کے یا ماسک پہن کر گزرنا پڑتاہے۔
ارریہ ہیڈ کوارٹر سے پڑوسی ملک نیپال جانے کے لیے بھی لوگ اسی سڑک سے ہوکر گزرتے ہیں، اس راستے میں برسوں سے کچرا پھینکا جاتا ہے مگر نگر پریشد کی جانب سے صفائی نہ ہونے پر یہ راستہ کچرے والا راستہ کہلانے لگا ہے۔
شہر میں ترشولیہ گھاٹ کے علاوہ اسٹیٹ ہائی وے رانی گنج، برما سیل،گاچھی ٹولہ، سبزی منڈی وغیرہ جگہوں پر بھی شہر کا کچرا پھینکا جاتا ہے، ترشولیہ گھاٹ پر نگر پریشد کی گاڑی کچرا پھینکنے جب آئی اور ان سے جب سوال پوچھنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب دیے بغیر راہ فرار اختیار کرلی۔ اور وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔
مرکزی حکومت کے ذریعہ سوچھ بھارت اور حفظان صحت کے لیے کئی طرح کے منصوبے چلائے جا رہے ہیں مگر زمین پر یہ منصوبے کتنے کامیاب ہیں اس کا اندازہ بڑی آسانی کے ساتھ غلاظت کے اس ڈھیر کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔
اس معاملے پر ارریہ نگر پریشد کے افسر بتاتے ہیں کہ کوڑا کچرا پھینکنے کے لیے جس زمین کی نشاندہی کی گئی ہے ابھی وہ ضلع پریشد کے قبضے میں ہے، اس معاملے کو بہت جلد حل کر لیا جائے گا، اور جن مقامات پر گندگی اور غلاظت پھینکی جا رہی ہے ان مقامات پر جے سی بی گاڑی کے ذریعہ صفائی کرائی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک عرصے سے شہر کے مختلف جگہوں پر کوڑا کرَکَٹ پھینکا جارہا ہے، نگر پریشد کے ذمہ داران کی اب تک اس جانب توجہ کیوں نہیں گئی؟ اس اہم معاملے میں کیوں سُستی اور سردمہری برتی جا رہی ہے، کیا اسی طرح سے سوچھ بھارت کا مشن پورا ہو پائے گا۔