ETV Bharat / state

Muslims's Situations in Bihar گیا: مسلمانوں کو سیاسی شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت - سابق مرکزی وزیر سے خصوصی انٹرویو

گیا میں سابق مرکزی وزیر ناگمنی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حصے داری اور نمائندگی چاہیے تو وہ سیکولرازم کے نام پر اپنے ووٹوں کی قربانی دینا بند کریں، سبھی رہنما پارٹی اور برادری اپنے حقوق کی باتیں کرتی ہیں تاہم مسلمان ابھی بھی اس معاملے میں پیچھے ہیں۔

exclusive_interview
exclusive_interview
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 18, 2023, 9:42 AM IST

Updated : Oct 18, 2023, 1:34 PM IST

مسلمانوں کو سیاسی شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت

گیا: بہار میں ذات کی بنا پر ہوئی گنتی کے بعد سیاسی صورتحال بدلنی شروع ہو گئی ہے۔ بہار کے کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے خاص فرقے کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے نئے اتحاد کی پیشکش اور بحث و مباحثہ کا دور شروع کردیا گیا ہے۔ کچھ نئی پارٹیاں بھی جو حال کے گزشتہ برسوں میں وجود میں آئی تھیں وہ بھی اب سیاسی طور پر متحرک ہو چکی ہیں اور اس کے رہنماوں کا بہار کے مختلف علاقوں میں دورہ شروع ہو گیا ہے۔

انہی میں ایک سابق مرکزی وزیر ناگمنی بھی ہیں جو مگدھ خطے کی 26 اسمبلی نشستوں کے علاوہ چار پارلیمانی حلقوں کو ٹارگیٹ ' نشان زد ' کیا ہے جہاں وہ اپنی پکڑ مضبوط کرنے اور مختلف برادریوں کو ساتھ ملاکر مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ اس حوالے سے مسلمانوں کو فارمولہ بھی بتا رہے ہیں کس طرح وہ بہار کی سیاست اور حکومت تک رسائی حاصل کریں گے اور مسلمانوں کی پوزیشن بڑے عہدے پر ہوگی، ناگمنی کی سوشت انقلاب پارٹی ہے۔ ناگمنی بہار کے لیلن کہے جانے والے شہید جگدیو پرساد کے بیٹے ہیں اور ایک وقت تھا جب ناگمنی کا سیاست میں ایک بڑا نام تھا اور وہ اس دوران کئی پارٹیوں میں رہے لیکن اب وہ اپنی پارٹی بناکر سیاست پھر سے متحرک ہوچکے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ناگمنی نے کہاکہ بہار میں لگاتار مسلمان سماجی انصاف اور سیکولرازم کے معاملے پر آر جے ڈی کو ووٹ دیتا رہا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں ہوا جس کو مسلمان بھی اب سمجھ چکے ہیں اور پورے بہار کا مسلمان آر جے ڈی سے بالکل خلاف ہو چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کو جب تک کوئی سیاسی طور پر متبادل اتحاد نہیں دیا جائے گا، تب تک یہی صورتحال ہوگی کیونکہ بی جے پی کے خلاف مسلمان کس کو ووٹ کرے گا ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اسی لیے بہار میں اُنکی طرف سے ایک الگ اتحاد جو پارٹی اور ووٹروں کے درمیان اتحاد ہوگا، اس پر کام کیا جا رہا ہے، ایم وائی ' مسلم یادو ' اتحاد وقت کے تقاضوں پر ہوا لیکن اس میں صرف یادو برادری کا فائدہ ہوا اور مسلمانوں کا نقصان ہوا۔

ذات کی بناء پر ہوئی گنتی سے واضح ہو چکا ہے کہ یادو برادری سے قریب چار فیصد مسلم زیادہ ہیں لیکن پارٹی میں نمائندگی سے لیکر سیاسی حصے داری، ٹکٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے، اُنہوں نے آر جے ڈی کو مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دکھاکر سیاسی طور پر حاشیے پر دھکیلنے کا الزام لگایا اور کہا کہ جب 2019 میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مسلمان سڑکوں پر تھے اور وہ لاٹھی ڈنڈے سے پیٹے جارہے تھے تب آر جے ڈی کے رہنماء تجسوی یادو گھر میں بیٹھے تھے،اُن کے گھر کا کوئی فرد مسلمانوں کے ساتھ دھرنے پر نہیں بیٹھا، کیا یہی اتحاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے تو اخلاقی طور پر بھی نائب وزیراعلی تیجسوی یادو کو استعفی پیش کرکے کسی مسلم رہنماء کو نائب وزیراعلی بنانا چاہئے تھا، بہار میں اگر ان کا اتحاد کامیاب رہا تو کوئری اور مسلم سماج سے وزیراعلی اور نائب وزیراعلی ہونگے۔

مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں فیصد کم کیوں؟

سابق مرکزی وزیر ناگمنی نے کانگریس سمیت سبھی سیکولر پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں میں خاصی تعداد تھی لیکن اب وہ صورتحال نہیں ہے، مسلم پانچ فیصد سے بھی کم ملازمت میں ہونگے، اس کا ذمہ دار کون ہے ، گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی کی حکومت ہے لیکن اس سے پہلے تو سیکولر جماعتوں کی ہی حکومت تھی تو پھر مسلمان حاشیے پر کیوں گئے ؟ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت درج فہرست ذات سے بھی خراب ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس رپورٹ کے مطابق معاشی تعلیمی استحکام کے لیے کوئی ٹھوس کام کیوں نہیں کیا گیا، سیاسی گھرانا مضبوط ہوا جو مسلم ووٹ پر حکومت میں آئے لیکن مسلمانوں کی حالت جوں کی توں رہی۔

مزید پڑھیں: ہمیں تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے:سماجی کارکن غلام محمد

انہوں نے کہا کہ مسلم قوم جذباتی ہے اس لیے کسی خاص پارٹی سے ڈرا کر اور سبزباغ دکھا کر ان سے ووٹ لیکر برسوں سے یہ راج کررہے ہیں، برسوں تک بابری مسجد معاملے میں الجھا کر رکھا گیا اور حیرت تو یہ ہے کہ بابری مسجد اور رام للا کا معاملہ بھی کانگریس کے زمانے میں شروع ہوا ، مسلمانوں سے مسجد بھی لے لی گئی اور اب بھی مسلمان ان کی بھلائی میں لگے ہوئے ہیں۔ ناگمنی نے کہاکہ بہار میں مسلم کوئری کوشواہا برادریوں کو ملاکر 22 فیصد سے زیادہ آبادی ہوگی، اگر یہ اتحاد ہوجاتا ہے تو بہار میں ایک نیا انقلاب ہوگا، انہوں نے کہاکہ وہ اس اتحاد پر اس لیے زور دے رہے ہیں کیونکہ مسلمانوں کا آج تک بھلا نہیں ہوا ہے، ہمارا مقصد ہے کہ مسلمانوں کی صحیح نمائندگی اور حصے داری ملے، ان کی حکومت بنی تو مسلم وزیر کے ہاتھوں میں محکمہ پولیس کی باگ ڈور ہوگی کیونکہ امن پسند مسلمانوں کو فساد میں جھونکا جاتا ہے اور وہ پولیس سے انصاف کی گہار لگاتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا ہے۔

ناگمنی کا ماننا ہے کہ اگر مسلم وزیر کے ہاتھوں میں پولیس محکمہ ہوگا تو پھر فساد نہیں ہوگا، ابھی بہار میں جو مسلم وزیر ہیں ان کو کون جانتا ہے؟ وہ مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ ان کی کمان ان کی اعلی قیادت کے پاس ہوتی ہے۔ ناگمنی کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو اب سیاسی شعور پیدا کرکے حساس ہونا ہوگا اور اپنے حق مانگنے ہونگے۔

مسلمانوں کو سیاسی شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت

گیا: بہار میں ذات کی بنا پر ہوئی گنتی کے بعد سیاسی صورتحال بدلنی شروع ہو گئی ہے۔ بہار کے کچھ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے خاص فرقے کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے نئے اتحاد کی پیشکش اور بحث و مباحثہ کا دور شروع کردیا گیا ہے۔ کچھ نئی پارٹیاں بھی جو حال کے گزشتہ برسوں میں وجود میں آئی تھیں وہ بھی اب سیاسی طور پر متحرک ہو چکی ہیں اور اس کے رہنماوں کا بہار کے مختلف علاقوں میں دورہ شروع ہو گیا ہے۔

انہی میں ایک سابق مرکزی وزیر ناگمنی بھی ہیں جو مگدھ خطے کی 26 اسمبلی نشستوں کے علاوہ چار پارلیمانی حلقوں کو ٹارگیٹ ' نشان زد ' کیا ہے جہاں وہ اپنی پکڑ مضبوط کرنے اور مختلف برادریوں کو ساتھ ملاکر مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ اس حوالے سے مسلمانوں کو فارمولہ بھی بتا رہے ہیں کس طرح وہ بہار کی سیاست اور حکومت تک رسائی حاصل کریں گے اور مسلمانوں کی پوزیشن بڑے عہدے پر ہوگی، ناگمنی کی سوشت انقلاب پارٹی ہے۔ ناگمنی بہار کے لیلن کہے جانے والے شہید جگدیو پرساد کے بیٹے ہیں اور ایک وقت تھا جب ناگمنی کا سیاست میں ایک بڑا نام تھا اور وہ اس دوران کئی پارٹیوں میں رہے لیکن اب وہ اپنی پارٹی بناکر سیاست پھر سے متحرک ہوچکے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ناگمنی نے کہاکہ بہار میں لگاتار مسلمان سماجی انصاف اور سیکولرازم کے معاملے پر آر جے ڈی کو ووٹ دیتا رہا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں ہوا جس کو مسلمان بھی اب سمجھ چکے ہیں اور پورے بہار کا مسلمان آر جے ڈی سے بالکل خلاف ہو چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کو جب تک کوئی سیاسی طور پر متبادل اتحاد نہیں دیا جائے گا، تب تک یہی صورتحال ہوگی کیونکہ بی جے پی کے خلاف مسلمان کس کو ووٹ کرے گا ؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اسی لیے بہار میں اُنکی طرف سے ایک الگ اتحاد جو پارٹی اور ووٹروں کے درمیان اتحاد ہوگا، اس پر کام کیا جا رہا ہے، ایم وائی ' مسلم یادو ' اتحاد وقت کے تقاضوں پر ہوا لیکن اس میں صرف یادو برادری کا فائدہ ہوا اور مسلمانوں کا نقصان ہوا۔

ذات کی بناء پر ہوئی گنتی سے واضح ہو چکا ہے کہ یادو برادری سے قریب چار فیصد مسلم زیادہ ہیں لیکن پارٹی میں نمائندگی سے لیکر سیاسی حصے داری، ٹکٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے، اُنہوں نے آر جے ڈی کو مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دکھاکر سیاسی طور پر حاشیے پر دھکیلنے کا الزام لگایا اور کہا کہ جب 2019 میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مسلمان سڑکوں پر تھے اور وہ لاٹھی ڈنڈے سے پیٹے جارہے تھے تب آر جے ڈی کے رہنماء تجسوی یادو گھر میں بیٹھے تھے،اُن کے گھر کا کوئی فرد مسلمانوں کے ساتھ دھرنے پر نہیں بیٹھا، کیا یہی اتحاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے تو اخلاقی طور پر بھی نائب وزیراعلی تیجسوی یادو کو استعفی پیش کرکے کسی مسلم رہنماء کو نائب وزیراعلی بنانا چاہئے تھا، بہار میں اگر ان کا اتحاد کامیاب رہا تو کوئری اور مسلم سماج سے وزیراعلی اور نائب وزیراعلی ہونگے۔

مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں فیصد کم کیوں؟

سابق مرکزی وزیر ناگمنی نے کانگریس سمیت سبھی سیکولر پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں میں خاصی تعداد تھی لیکن اب وہ صورتحال نہیں ہے، مسلم پانچ فیصد سے بھی کم ملازمت میں ہونگے، اس کا ذمہ دار کون ہے ، گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی کی حکومت ہے لیکن اس سے پہلے تو سیکولر جماعتوں کی ہی حکومت تھی تو پھر مسلمان حاشیے پر کیوں گئے ؟ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت درج فہرست ذات سے بھی خراب ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس رپورٹ کے مطابق معاشی تعلیمی استحکام کے لیے کوئی ٹھوس کام کیوں نہیں کیا گیا، سیاسی گھرانا مضبوط ہوا جو مسلم ووٹ پر حکومت میں آئے لیکن مسلمانوں کی حالت جوں کی توں رہی۔

مزید پڑھیں: ہمیں تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے:سماجی کارکن غلام محمد

انہوں نے کہا کہ مسلم قوم جذباتی ہے اس لیے کسی خاص پارٹی سے ڈرا کر اور سبزباغ دکھا کر ان سے ووٹ لیکر برسوں سے یہ راج کررہے ہیں، برسوں تک بابری مسجد معاملے میں الجھا کر رکھا گیا اور حیرت تو یہ ہے کہ بابری مسجد اور رام للا کا معاملہ بھی کانگریس کے زمانے میں شروع ہوا ، مسلمانوں سے مسجد بھی لے لی گئی اور اب بھی مسلمان ان کی بھلائی میں لگے ہوئے ہیں۔ ناگمنی نے کہاکہ بہار میں مسلم کوئری کوشواہا برادریوں کو ملاکر 22 فیصد سے زیادہ آبادی ہوگی، اگر یہ اتحاد ہوجاتا ہے تو بہار میں ایک نیا انقلاب ہوگا، انہوں نے کہاکہ وہ اس اتحاد پر اس لیے زور دے رہے ہیں کیونکہ مسلمانوں کا آج تک بھلا نہیں ہوا ہے، ہمارا مقصد ہے کہ مسلمانوں کی صحیح نمائندگی اور حصے داری ملے، ان کی حکومت بنی تو مسلم وزیر کے ہاتھوں میں محکمہ پولیس کی باگ ڈور ہوگی کیونکہ امن پسند مسلمانوں کو فساد میں جھونکا جاتا ہے اور وہ پولیس سے انصاف کی گہار لگاتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا ہے۔

ناگمنی کا ماننا ہے کہ اگر مسلم وزیر کے ہاتھوں میں پولیس محکمہ ہوگا تو پھر فساد نہیں ہوگا، ابھی بہار میں جو مسلم وزیر ہیں ان کو کون جانتا ہے؟ وہ مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ ان کی کمان ان کی اعلی قیادت کے پاس ہوتی ہے۔ ناگمنی کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو اب سیاسی شعور پیدا کرکے حساس ہونا ہوگا اور اپنے حق مانگنے ہونگے۔

Last Updated : Oct 18, 2023, 1:34 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.