بہار کے اقلیتی کالج حکومت کی ناانصافی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقلیتی کالجوں کے ملازمین کو چھوڑ کر بقیہ کالجوں کے ملازمین کو اے سی پی پروموشن کی رقم ملنے لگی ہے۔ تین برسوں سے اقلیتی کالج حکومت کے نوٹیفکیشن کے منتظر ہیں۔
بہار میں اقلیتی کالجوں کے غیر تدریسی ملازمین کے ساتھ حکومت کی ناانصافی کے سبب ملازمین میں اضطراب اور بے چینی بڑھنے لگی ہے۔ دراصل اقلیتی کالجوں کے ملازمین Accured career progression "اے سی پی" اور modified assured career progression scheme " macps" سے محروم ہیں۔
بہار کے سبھی کالجوں کے غیر تدریسی ملازمین کو اے سی پی پرموشن کی رقم ملنے لگی ہے لیکن حکومت کے نوٹیفکیشن کی غلطی کی وجہ سے اقلیتی کالجوں کے غیر تدریسی ملازمین اس کے فائدے سے محروم ہیں۔ اقلیتی کالجوں کے ملازمین دفتروں کا چکر کاٹ رہے ہیں، جب کہ فائلیں اور کاغذات سرکاری محکموں سے لیکر راج بھون میں دھول پھانک رہے ہیں۔
غیر اقلیتی کالجوں کے ملازمین کو اے سی پی کی رقم حکومت کے ذریعے دی گئی ہے لیکن مگدھ یونیورسٹی کے مرزا غالب کالج گیا اور پاٹلی پترا یونیورسٹی کے اورینٹل کالج، علامہ اقبال کالج اور صغریٰ کالج کے ملازمین کو اے سی پی کی رقم سے محروم رکھا گیا ہے، جس وجہ سے ملازمین سخت ناراض ہیں۔
مرزا غالب کالج گیا کے ملازم حامد زکریا نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اے سی پی کا فائدہ اقلیتی کالجوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اے سی پی پروموشن رقم انہیں ملتی ہے جن کی بحالی اور ڈیوٹی کے دس سال اور بارہ سال ہوگئے ہوں لیکن کئی ملازمین ہیں جو تیس برس سے زیادہ نوکری کرکے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ اگر اس کا فائدہ انہیں ملتا ہے تو اس سے ان کی تنخواہ اور پینشن میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت اقلیتی کالجوں کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جنرل نوٹیفکیشن جاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔
مرزا غالب کالج کے ہی ایک اور ملازم امن رائے نے کہا کہ اقلیتی کالج کے ساتھ حکومت کی یہ ناانصافی ہے۔ جب سبھی کو اس کا فائدہ ملا ہے تو اقلیتی کالجوں کے ساتھ تفریق کیوں برتی گئی ہے۔ انہوں نے برسوں سے اپنی خدمات انجام دی ہے اور اے سی پی اور ایم اے سی پی کا جو سلیب دس برس اور بارہ برس ڈیوٹی کا ہونا ہے، وہ پوری کر چکے ہیں۔ اب ایسے میں اے سی پی پروموشن کی رقم سے محروم رکھنا ایک بڑی سازش ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر سہیل احمد کہتے ہیں کہ جب بہار حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا اور اس میں اقلیتی کالجوں کا ذکر نہیں کیا گیا تو اس کو لیکر سبھی اقلیتی کالجوں کے ملازمین میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ مگدھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تو اس تعلق سے گورننگ باڈی سے پروپوزل بھیجنے کی بات کہی گئی۔ جس کے بعد گورننگ باڈی مرزا غالب کالج نے اپنے ملازمین کے ساتھ ہورہی ناانصافی کا خیال کرتے ہوئے ایمرجنسی میٹنگ کرکے اے سی پی کا فائدہ دلانے کی غرض سے پروپوزل کی تجویز کو منظوری دے کر یونیورسٹی بھیجا۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی سے کارروائی کرکے محکمہ تعلیم کو سفارش نامہ بھیجا گیا۔ حکومت نے اس تعلق سے محکمہ قانون اور فائنانس سے صلاح مانگی۔ سبھی محکموں نے اے سی پی پروموشن کا فائدہ دینے کی تجویز کو قبول کرکے حکومت کو دیا۔ جس کے بعد حکومت نے حتمی منظوری کے لیے گورنر ہاؤس فائل بھیجا، جہاں فائل رکی ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی دوبارہ اس جانب دھیان نہیں دیا گیا۔ گورنر ہاؤس سے کارروائی کرکے فائل واپس کرنے کا ریمانڈ نہیں کیا گیا ہے۔ مرزا غالب کالج گیا کے ملازمین نے مارچ 2021 کو پھر سے درخواست دیکر اس کا فائدہ دینے کی اپیل کی ہے۔
اقلیتی کالجوں کے غیر تدریسی ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اس کا فائدہ ملتا تو آج وہ مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرتے۔ ان کی تنخواہ میں بھی دس سے بارہ ہزار روپے کا اضافہ ہوتا۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے لے کر گورنر بہار تک کو حالات اور مسائل کی جانکاری دی گئی ہے لیکن معاملہ فائل تک ہی رکا ہوا ہے۔ ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے مختلف محکموں کی بے توجہی کی وجہ سے اقلیتی کالج ہمیشہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔