واضح ہو کہ ان دنوں سیلاب سے مدھے پورہ میں ہر طرف تباہی، بربادی اور مایوسی کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لہذا یہاں کے لوگ خانہ بدوشوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شاید لوگ اس طرح کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
معلوم ہو کہ بہار کے مدھے پورہ ضلع کے تحت چوسا بلاک کے پھلوت، مرسنڈا، پنڈاہی، جھنڈا پور، دھاسک پور، سپنی موسہری، کریل باسا سمیت درجنوں گائوں ان دنوں کوسی کی تیز دھارا کی گرفت میں ہیں۔ سیاستدان سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ متاثرین کی پریشانی سے شاید انہیں کوئی مطلب نہیں۔
اس بلاک میں سیلاب کی وجہ سے 20 ہزار سے زیادہ آبادی متاثر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چوسا بلاک کے علاقے پھلوت، مرسندہ وغیرہ میں صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ کوسی ندی میں عروج کی وجہ سے باندھ کے اندر بسے تقریباً تین درجن گائوں ڈوب چکے ہیں۔ کوسی کی آبی سطح میں اضافے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف، رہائشی مکانات میں سیلاب کا پانی داخل ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ سدھا مہتا، جوگندر مہتا، راجیش کمار، انیل مہتا، پربھاکر سنگھ، چندن سنگھ، کیلاش سنگھ، وریندر کمار، رنجن کمار، امیش کمار سنگھ، راجیش کمار، وریندر کمار، چندر شیکھر مہتا، شمبھو چودھری، ببلو چودھری، گنیش چودھری، رودال چودھری، جواہر ریشی دیو، جناردھن ریشی دیو، ودیانند ریشی دیو، مہاراج ریشی دیو سمیت درجنوں افراد نے بتایا کہ اتنی تباہی ہونے کے باوجود راحت رسانی کے لئے ضلع سے ایک بھی اعلیٰ افسر نہیں آئے ہیں۔ صرف مقامی افسران یہاں آکر لوگوں کو یقین دہانی کرا کر چلے جاتے ہیں۔
اس علاقے میں ہر سال سیلاب آتا ہے لیکن ان کی سننے کوئی نہیں آتا ہے۔ صرف انتخابات کے وقت سیلاب کے مسئلے سے نجات دلانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ووٹ کے لیے آجاتے ہیں۔
سیلاب بہت زیادہ ہوتا ہے جس میں کبھی کبھی بچے گر کر مر جاتے ہیں اور نا جانے کتنی ماؤں کی گود سونی ہو جاتی ہے۔ کبھی والدین کا انتقال ہو جاتا ہے اور بچے ہتیم ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے چلا آ رہا ہے لیکن یہاں ان کی سننے کوئی نہیں آتا ہے اور نہ ہی ان سب کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔
گذشتہ 25 برسوں سے اس اسمبلی حلقہ سے جے ڈی یو امیدوار نریند نارائن یادو رکن اسمبلی ہیں اور کئی بار ریاستی وزیر بھی رہے ہیں لیکن کبھی بھی ان گاوں والوں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ بچاؤ اور امدادی کاموں کے نام پر صرف کاغذوں پر ہوتا ہے۔ یہاں پر ابھی تک لوگ حکومت سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ریاستی حکومت ان کے لیے کچھ نہ کچھ کرے گی لیکن ابھی تک کوئی بھی ان کے مسئلہ کو حل کرنے نہیں آیا اور نہ ہی علاقے کے لوگوں کو سیلاب سے نجات مل سکا ہے۔
گاوں میں اسکول بھی ہے لیکن سیلاب کی وجہ سے تین مہینے سے بند پڑا ہے۔ بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں جس سے ان کی تعلیم رک گئی ہے۔