بہار کے کشن گنج اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں نامزدگی کا آج آخری دن تھا۔ کانگریس سے سعیدہ بانو ، بی جے پی سے سویٹی سنگھ، مجلس اتحاد المسلمین سے قمرالہدا اور سی پی آئی سے فروز عالم سمیت کئی آزاد امیدواروں نے آج اپنا پرچہ بھرا۔
پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی اس کے بعد کانگریس نے اپنے امیدوار کا اعلان کیا۔ پھر مجلس اتحاد المسلمین کی باری آئی۔ شام 7:20 بجے امیدوار کا نام اعلان کرنے کے دوران مجلس کے کشن گنج ہیڈ آفس میں جمکر ہنگامہ و توڑپھوڑ ہوا۔
ٹکٹ نہ ملنے سے تسحیرالدین کے حامیوں نے آفس میں رکھے پارٹی کے بینر پوسٹر جلا ڈالے۔
صوبائی صدر اخترالایمان پر 50 لاکھ میں ٹکٹ بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ حالانکہ بعد میں اخترالایمان نے تمام الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کچھ بھی بولنے سے منع کردیا۔
آج جب بی جے پی، کانگریس اور مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار نے اپنا پرچہ بھرا تو سوشل میڈیا سے لیکر سیاسی گلیاروں میں یہ چرچہ ہونے لگی کہ کیا ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض تسحیرالدین کو مجلس اتحاد المسلمین کے صوبائی صدر اخترالایمان منا پائیں گے؟
آج دوپہر تسحیرالدین اپنی پوری ٹیم کے ساتھ نامزدگی کے لئے آئے۔ انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر اپنا پرچہ بھرا۔ نامزدگی کے بعد جب وہ میڈیا سے مخاطب ہوئے تو لوگوں کی ہجوم لگ گئی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سارے امیدواروں میں تسحیرالدین کے نامزدگی کے دوران سب سے زیادہ بھیڑ تھی۔
خیر پرچہ نامزدگی کے بعد اب انتخاب کو لیکر لوگوں میں طرح طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔
سیاسی سمجھ رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہیکہ اگر مجلس اتحاد المسلمین دو گروپ میں نہیں بٹتی تو پچھلے انتخاب سے زیادہ ووٹ لاتی۔
غور طلب ہیکہ سال 2015 کے اسمبلی انتخاب میں مجلس کے امیدوار تسحیرالدین کو 16 ہزار ووٹ ملے تھے اور وہ تیسرے پائیدان پر تھے۔
یہ ووٹوں کے بٹنٹے کے لئے بھی نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ صرف تسحیرالدین میدان میں ہوتے تو کانگریس کا شہری ووٹ محفوظ رہتا لیکن شہر سے تعلق رکھنے والے سابق چئیرمین قمرالہدا کے مجلس امیدوار ہونے سے شہر کے مسلمانوں کا ووٹ کانگریس اور مجلس میں تقسیم ہو سکتا ہے۔
وہیں گاوں سے وابستہ تسحیرالدین کانگریس کے گاؤں کے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کریں گے۔
اس طرح بی جے پی امیدوار سویٹی سنگھ جو پچھلے انتخاب میں 57000 ووٹ لائی تھیں وہ کانگریس کے 65000 کے نمبر کو چھو سکتی ہے۔