ETV Bharat / state

Madarasa Survey is Baseless بہار میں مدارس کے سروے کا مطالبہ بے بنیاد

author img

By

Published : Sep 26, 2022, 4:37 PM IST

بہار میں مدارس کے سروے کا مطالبہ بے بنیاد ہے۔ حکومت پہلے سرکاری تعلیمی اداروں کو درست کرے جس کی اشد ضرورت ہے۔ Demanding for Bihar Madarasa Survey is Baseless

demanding-for-bihar-madarasa-survey-is-baseless
بہار میں مدارس کے سروے کا مطالبہ بے بنیاد

گیا: ضلع گیا کا معروف ادارہ مدرسہ ترتیل القرآن کے ناظم اعلی مولانا عظمت اللہ ندوی نے مدارس کے سروے کے مطالبہ کی مخالفت کی ہے۔ دراصل اتر پردیش کی طرح ہی بہار میں بھی مدرسوں کا سروے کرانے کا مطالبہ بی جے پی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ہورہا ہے۔ اس پر ایک بار پھر سیاست تیز ہوگئی ہے۔ Demanding for Bihar Madarasa Survey is Baseless

ویڈیو

اس سلسلے میں مولانا عظمت اللہ ندوی نے کہاکہ' حکومت کو چاہیے کہ پہلے سرکاری مدارس اور اسکولوں کا سروے کرائے جن کی حالت انتہائی خستہ ہیں۔ سرکاری مدارس اور سرکاری اسکولوں کا انفراٹیکچر بہت خراب ہے، تعلیمی نظام بدتر ہوچکاہے، وہاں کے اساتذہ اور ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہیں۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں کئی ماہ سے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔ آج بھی یوپی اور بہار کے اسکولوں کی تصویریں سامنے آتی ہیں جس میں بچے کھلے میں درختوں کے نیچے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ اگر واقعی حکومت کو مسلم بچوں کی تعلیم کی فکر ہے تو وہ سرکاری مدارس اور سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر کرے، انہیں بہتر انفراسٹکچر دے نجی مدارس تو عوامی چندے سے چلتے ہیں اس لیے ان کے پاس وسال کی کمی کے باوجود وہ سرکاری اسکولوں اور مدارس سے اچھی تعلیم دیتے ہیں۔'

انہوں نے کہاکہ اتر پردیش میں مدارس کا سروے ایک سیاسی پہلو ہے، جسکا انتخاب میں استعمال ہوگا، اور پھر مدارس کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مدارس کے ذمہ دران تو سروے کرائیں گے، لیکن حکومت کو اپنی نیتی اور نیت صاف کرنی ہوگی، اگر خلوص کے ساتھ سروے بہتری کے لیے ہوتا تو حکومت اس پر پروپیکنڈہ کھڑا نہیں کرتی بلکہ سروے کرانے سے پہلے مدارس سے سر جوڑ کر اپنے ارادے اور عزائم کا اظہار کرتی۔ انہوں نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے سروے کا بغیر کسی مزمت کے استقبال کرنا چھوٹے مدارس کے لیے مصیبت کھڑی کردی ہے، انہوں نے کہاکہ بڑے مدرسوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن ہزاروں چھوٹے مدرسے بند ہوجائیں گے یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ غور طلب ہے کہ بہار میں بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر پریم کمار نے بھی مدرسے کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:

گیا: ضلع گیا کا معروف ادارہ مدرسہ ترتیل القرآن کے ناظم اعلی مولانا عظمت اللہ ندوی نے مدارس کے سروے کے مطالبہ کی مخالفت کی ہے۔ دراصل اتر پردیش کی طرح ہی بہار میں بھی مدرسوں کا سروے کرانے کا مطالبہ بی جے پی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ہورہا ہے۔ اس پر ایک بار پھر سیاست تیز ہوگئی ہے۔ Demanding for Bihar Madarasa Survey is Baseless

ویڈیو

اس سلسلے میں مولانا عظمت اللہ ندوی نے کہاکہ' حکومت کو چاہیے کہ پہلے سرکاری مدارس اور اسکولوں کا سروے کرائے جن کی حالت انتہائی خستہ ہیں۔ سرکاری مدارس اور سرکاری اسکولوں کا انفراٹیکچر بہت خراب ہے، تعلیمی نظام بدتر ہوچکاہے، وہاں کے اساتذہ اور ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہیں۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں کئی ماہ سے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے۔ آج بھی یوپی اور بہار کے اسکولوں کی تصویریں سامنے آتی ہیں جس میں بچے کھلے میں درختوں کے نیچے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ اگر واقعی حکومت کو مسلم بچوں کی تعلیم کی فکر ہے تو وہ سرکاری مدارس اور سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتر کرے، انہیں بہتر انفراسٹکچر دے نجی مدارس تو عوامی چندے سے چلتے ہیں اس لیے ان کے پاس وسال کی کمی کے باوجود وہ سرکاری اسکولوں اور مدارس سے اچھی تعلیم دیتے ہیں۔'

انہوں نے کہاکہ اتر پردیش میں مدارس کا سروے ایک سیاسی پہلو ہے، جسکا انتخاب میں استعمال ہوگا، اور پھر مدارس کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مدارس کے ذمہ دران تو سروے کرائیں گے، لیکن حکومت کو اپنی نیتی اور نیت صاف کرنی ہوگی، اگر خلوص کے ساتھ سروے بہتری کے لیے ہوتا تو حکومت اس پر پروپیکنڈہ کھڑا نہیں کرتی بلکہ سروے کرانے سے پہلے مدارس سے سر جوڑ کر اپنے ارادے اور عزائم کا اظہار کرتی۔ انہوں نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے سروے کا بغیر کسی مزمت کے استقبال کرنا چھوٹے مدارس کے لیے مصیبت کھڑی کردی ہے، انہوں نے کہاکہ بڑے مدرسوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن ہزاروں چھوٹے مدرسے بند ہوجائیں گے یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ غور طلب ہے کہ بہار میں بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر پریم کمار نے بھی مدرسے کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.