گیا: گیا ضلع انجمن محافظ اُردو کمیٹی نے کہا ہے کہ ضلع کے سرکاری اردو اسکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ ضلع محکمہ تعلیم کے افسران توجہ مرکوز کریں اور جہاں اساتذہ کی کمی ہے وہاں اساتذہ اور جہاں طلباء کا داخلہ نہیں ہے وہاں طلباء کے داخلہ کو یقینی بنایا جائے۔ ضلع گیا میں واقع اُردو اسکولوں کی حالات سدھار نے کا مطالبہ برسوں پرانا ہے، محکمہ تعلیم کی جانب سے چلنے والے کئی اُردو پرائمری اسکول ہیں جو اپنے قیام کے جگہ سے منتقل کردیے گئے ہیں، ان اسکولوں کی خود کی عمارت نہیں ہونے کی وجہ سے اُنہیں دوسرے اسکولوں کی عمارت میں منتقل کیا گیا۔
اس میں قابل غور بات یہ کہ کئی ایسے اسکول ہیں جنہیں اس جگہ پر منتقل کردیا گیا جہاں پر غیر اُردو آبادی ہے، امام گنج کے درزی بگہا کے اردو پرائمری اسکول کو قائم ہوئے برسوں کا وقت گزر چکا ہے، لیکن آج تک اس کی خود کی عمارت نہیں ہے، یہ گاؤں پسماندہ ہے۔ یہاں نجی اسکول بھی نہیں ہے۔ بچوں کو پڑھنے کا ایک سہارا اردو پرائمری اسکول ہے، لیکن عمارت نہیں ہونے کی وجہ سے بچوں کو کافی پریشانی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
انجمن اُردو محافظ کمیٹی کے صدر فضل وارث نے کہا کہ بہار حکومت نے اقلیتی طبقہ کے بچوں کی تعلیم کے لیے اُردو پرائمری اسکولوں کا قیام کرایا تھا لیکن افسوسناک بات ہے کہ ان اسکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ حکومت کی ایک مثبت پہل تھی کہ گاؤں سے لیکر شہر تک اسکول قائم ہو تاکہ بچوں کو دور جاکر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے، لیکن ضلع میں بیس سے زیادہ ایسے اُردو اسکول ہیں جن کی خود کی عمارت نہیں ہے محکمہ تعلیم اور حکومت ان اسکولوں کی عمارت کی تعمیر کرائے۔ ساتھ ہی میٹنگ میں سرکاری اداروں میں اُردو نام پلیٹ تختی لگوانے کا مطالبہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ انجمن محافظ اُردو کمیٹی اُردو کے فروغ کے سلسلے میں کام کرتی ہے، انجمن محافظ اُردو کی پہل پر کئی اسکولوں میں اُردو اساتذہ کو تعینات کیا گیا ہے۔