کیمور کے موہنیاں حلقہ کے جیتا پور گاؤں میں واقع مدرسہ اہل سنت صابریہ مصباح العلوم میں اجلاس دستار بندی کا انعقاد ہوا جس میں ضلع کے معروف علماکرام اور دانشوروں نے شرکت کی۔
علماکرام نے بیک زبان این آر سی اور این پی آر کی جم کر مخالفت کی اور اس قانون کے خلاف بھارتی آئین کی روشنی میں دلائل پیش کئے۔ اجلاس میں راجیہ سبھا کے ممبر عبید اللہ خان اعظمی مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے۔
انہوں نے بھی مرکزی حکومت کے خلاف سخت نکتہ چینیاں کی۔
15 مارچ کی شب متعدد حفاظ کرام کی دستار بندی کی گئی اور انہیں حافظ قرآن کے سند سے نوازا گیا۔ دستار سے نوازے گئے طلبا میں حافظ محمد طالب، حافظ محمد ظہیر عارفی، حافظ محمد عارف حسین قابل ذکر ہیں۔
اجلاس دستاربندی کا آغاز تلاوت کلام اللہ، درود شریف اور نعت پاک سے ہوا۔
اجلاس دستاربندی کے موقع پر سماجی کارکن الیاس انصاری، معشوق احمد خان، میر عرفان، میر عمران، روزہ فاروقی اور شکیل میاں وغیرہ نے خطاب کیا اور تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم یافتہ انسان نا خواندہ لوگوں کے مقبلہ زیادہ کماتا ہے اور عزت اور سرخروئی کے ساتھ سماج میں جیتا ہے۔ وہ اپنے وقت کو زیادہ مؤثر انداز میں گزارتا ہے اور تعمیری کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ کم سے کم فارغ بیٹھے اور اپنے قیمتی وقت کو زيادہ سے زیادہ تعمیری کاموں میں مصروف رکھے۔اس طرح سے وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بہتر کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
مہمان خصوصی راجیہ سبھا کے سابق رکن عبیداللہ خان اعظمی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم تربیت کے ساتھ ساتھ ملک کے موجودہ صورت حال خاص طور پر متنازع قانون سی اے اے کے ساتھ این آر سی اور این پی آر کے پر روشنی ڈالی اور عوام کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرایا ۔
انہوں نے کہا کہ سبھوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ این آر سی صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بکہ اس سے غریبوں، دلتوں، قبائلیوں کا بڑا نقصان ہے اور انہیں ان کی اپنی زمیونوں سے محروم کرنے کی ایک منظم سازش ہے تاہم سبھوں کو متحد ہو کر اس قانون کی مخالفت اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک حکومت اپنا فیصلہ واپس نہ لے لیے۔