ETV Bharat / state

گیا: لاک ڈاؤن نے برسوں بعد بیل گاڑی کو ملازمت سے جوڑا

بہار کے گیا میں لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے دیہی علاقوں کی سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد ورفت رک گئی ہے۔ خاص طور پر مال ڈھونے والی گاڑیوں کی رفتار رکی تو قریب دو دہائیوں بعد پھر سے " بیل و بھینسا گاڑی" سہارا بنی ہیں۔ گیا کے امام گنج، شیرگھاٹی، بانکے بازار کے علاقے میں بیل گاڑیاں پھر سے چلنے لگی ہیں۔

author img

By

Published : May 15, 2021, 8:56 AM IST

Updated : May 15, 2021, 9:56 AM IST

bull cart linked to employment amid lockdown in gaya
لاک ڈاؤن نے برسوں بعد بیل گاڑی کو ملازمت سے جوڑا

دراصل ضلع گیا کے دیہی علاقوں میں ایک کہاوت اور ڈائیلاگ ہے " سب سے اگاڑی، ہمار بیل گاڑی" لیکن آج کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن میں واقعی بیل گاڑی نے دیہی علاقوں کا پہیہ سنبھال لیا ہے۔ بیل گاڑی کی رفتار بھلے ہی تیز نہیں ہو تاہم گاؤں اور بازاروں کے کام کاج جو غریبوں اور مزدوروں سے جڑے ہیں اسے رکنے نہیں دیا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں سے مال ڈھونے والی گاڑیاں غائب ہوئیں تو مویشیوں کے چارہ، راشن و سبزیاں اور عمارتوں کی تعمیر میں لگنے والے سامانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل کرنے میں دشواری ہونے لگی، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے کام کاج متاثر ہونے لگے تھے۔ لیکن گاؤں کے لوگوں نے بھی اس پریشانی سے باہر نکلنے کے طریقے ڈھونڈ لئے اور انہوں نے بیل گاڑیوں کا سہارا لیا۔

اپنی ضروریات کے لیے سامانوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانا شروع کر دیا۔ اس سے نہ صرف دیہی علاقوں کے باشندوں کو فائدہ ہورہا ہے بلکہ بیل گاڑی کے مالکان کو بھی روزانہ 500 سے 600 روپے کی آمدنی ہو رہی ہے اور انہیں لاک ڈاؤن میں ایک اچھا روزگار دستیاب ہوگیا ہے۔

بیل گاڑیوں سے کبھی جانوروں کا چارہ تو کبھی سیمنٹ تو کبھی راشن کے سامان لائے جارہے ہیں۔ گاؤں کی سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی رفتار رکی تو بیل گاڑی بنی سہارا، گیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہی علاقوں کو جوڑنے والی اہم سڑکوں پر چند گاڑیاں ہی نظر آرہی ہیں حالانکہ مال گاڑی ہو یا سواری گاڑیاں ان پر پابندی عائد نہیں ہے، تاہم شرائط اور بندشوں کے ساتھ چلانے کی اجازت ہے۔

گاؤں میں کورونا کے پھیلتے پاؤں اور حکومت کی بندشوں کی وجہ سے سامان لے جانے کے لیے گاڑیوں کی کمی ہے۔ یہاں تک کہ بازاروں سے گاؤں تک چلنے والے آٹو بھی بند ہیں۔

ایسی صورتحال میں گاؤں کے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے گاؤں کے لوگوں نے اس بیل گاڑی کا سہارا لیا، جسے دو دہائیوں قبل ہی دیہی باشندوں نے استعمال کے لیے بند کر دیا تھا۔

نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی بیل گاڑی خاص بات یہ ہے کہ یہ بیل گاڑی گاؤں کی کچی سڑک پر نہیں بلکہ نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی ہیں۔ گیا کے امام گنج سے شیرگھاٹی کو جانے والی سڑک پر ان دنوں درجنوں بیل گاڑی چل رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی آسانی ہورہی ہے۔

امام گنج، بانکے بازار، ڈمراواں، شیرگھاٹی تک یہ بیل گاڑیاں چل رہی ہیں۔ بیل گاڑی سے گاؤں کے باشندے خصوصی طور پر راشن، مویشیوں کے لیے چارہ اور دیگر سامان ڈھوئے جارہے ہیں۔

عمارتوں سے جڑے سامان جیسے سیمنٹ وغیرہ اس سے ڈھونے کے لیے مطالبہ کم ہے، لیکن مویشیوں کا سامان اور سبزی وغیرہ کی بوریوں کو لانے لے جانے میں بیل گاڑی چلانے والے بھی کتراتے نہیں ہیں۔

  • دوری اور وزن سے ریٹ طے

بیل گاڑی چلانے والے فی بورا 30 روپے کرایہ لے رہے ہیں۔

بورے کاوزن پچاس سے سو کلو کے درمیان ہونا چاہیے۔

40 سے نیچے والے بورے کا کرایہ آپسی سمجھوتے کے تحت طے ہوتا ہے۔

30 روپے کرایہ دس کلو میٹر تک کی دوری کا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ دوری ہونے پر بیل گاڑی کے مالک ڈبل کرایا وصول کرتے ہیں یا پھر جو طے ہوتا ہے اس کے تحت وہ پیسے لیتے ہیں۔

بیل گاڑی چلانے والے بالیشورو مہتو اور بالدیو مہتو نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ بے روزگار ہو گئے تھے تو بیل گاڑی نے روزگار دے دیا ہے۔ ان دنوں اچھی مانگ آرہی ہے لوگ چاول،بھونسا اور سبزی وغیرہ ڈھلائی کرا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:

عید پر کورونا کا سایہ: عید کی نماز گھروں میں ادا کی گئی

ویسے تو دن بھر میں ایک بار ہی کرایہ ملتا ہے لیکن ان دنوں دن بھر میں دو پھیرے لگا لیتے ہیں تو 600 سے 700 روپے تک کی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور بیل گاڑی چلانے والے رتن نے بتایا کہ وہ تو پہلے سے بیل گاڑی چلاتے تھے لیکن ان دنوں گاؤں کے باہر چلا رہے ہیں۔ آمدنی یا ایک بار کا کرایہ 250 سے 300 روپے انہیں مل جاتے ہیں۔

دراصل ضلع گیا کے دیہی علاقوں میں ایک کہاوت اور ڈائیلاگ ہے " سب سے اگاڑی، ہمار بیل گاڑی" لیکن آج کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن میں واقعی بیل گاڑی نے دیہی علاقوں کا پہیہ سنبھال لیا ہے۔ بیل گاڑی کی رفتار بھلے ہی تیز نہیں ہو تاہم گاؤں اور بازاروں کے کام کاج جو غریبوں اور مزدوروں سے جڑے ہیں اسے رکنے نہیں دیا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں سے مال ڈھونے والی گاڑیاں غائب ہوئیں تو مویشیوں کے چارہ، راشن و سبزیاں اور عمارتوں کی تعمیر میں لگنے والے سامانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل کرنے میں دشواری ہونے لگی، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کے کام کاج متاثر ہونے لگے تھے۔ لیکن گاؤں کے لوگوں نے بھی اس پریشانی سے باہر نکلنے کے طریقے ڈھونڈ لئے اور انہوں نے بیل گاڑیوں کا سہارا لیا۔

اپنی ضروریات کے لیے سامانوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانا شروع کر دیا۔ اس سے نہ صرف دیہی علاقوں کے باشندوں کو فائدہ ہورہا ہے بلکہ بیل گاڑی کے مالکان کو بھی روزانہ 500 سے 600 روپے کی آمدنی ہو رہی ہے اور انہیں لاک ڈاؤن میں ایک اچھا روزگار دستیاب ہوگیا ہے۔

بیل گاڑیوں سے کبھی جانوروں کا چارہ تو کبھی سیمنٹ تو کبھی راشن کے سامان لائے جارہے ہیں۔ گاؤں کی سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی رفتار رکی تو بیل گاڑی بنی سہارا، گیا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہی علاقوں کو جوڑنے والی اہم سڑکوں پر چند گاڑیاں ہی نظر آرہی ہیں حالانکہ مال گاڑی ہو یا سواری گاڑیاں ان پر پابندی عائد نہیں ہے، تاہم شرائط اور بندشوں کے ساتھ چلانے کی اجازت ہے۔

گاؤں میں کورونا کے پھیلتے پاؤں اور حکومت کی بندشوں کی وجہ سے سامان لے جانے کے لیے گاڑیوں کی کمی ہے۔ یہاں تک کہ بازاروں سے گاؤں تک چلنے والے آٹو بھی بند ہیں۔

ایسی صورتحال میں گاؤں کے لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے گاؤں کے لوگوں نے اس بیل گاڑی کا سہارا لیا، جسے دو دہائیوں قبل ہی دیہی باشندوں نے استعمال کے لیے بند کر دیا تھا۔

نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی بیل گاڑی خاص بات یہ ہے کہ یہ بیل گاڑی گاؤں کی کچی سڑک پر نہیں بلکہ نیشنل ہائی وے 69 پر چل رہی ہیں۔ گیا کے امام گنج سے شیرگھاٹی کو جانے والی سڑک پر ان دنوں درجنوں بیل گاڑی چل رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی آسانی ہورہی ہے۔

امام گنج، بانکے بازار، ڈمراواں، شیرگھاٹی تک یہ بیل گاڑیاں چل رہی ہیں۔ بیل گاڑی سے گاؤں کے باشندے خصوصی طور پر راشن، مویشیوں کے لیے چارہ اور دیگر سامان ڈھوئے جارہے ہیں۔

عمارتوں سے جڑے سامان جیسے سیمنٹ وغیرہ اس سے ڈھونے کے لیے مطالبہ کم ہے، لیکن مویشیوں کا سامان اور سبزی وغیرہ کی بوریوں کو لانے لے جانے میں بیل گاڑی چلانے والے بھی کتراتے نہیں ہیں۔

  • دوری اور وزن سے ریٹ طے

بیل گاڑی چلانے والے فی بورا 30 روپے کرایہ لے رہے ہیں۔

بورے کاوزن پچاس سے سو کلو کے درمیان ہونا چاہیے۔

40 سے نیچے والے بورے کا کرایہ آپسی سمجھوتے کے تحت طے ہوتا ہے۔

30 روپے کرایہ دس کلو میٹر تک کی دوری کا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ دوری ہونے پر بیل گاڑی کے مالک ڈبل کرایا وصول کرتے ہیں یا پھر جو طے ہوتا ہے اس کے تحت وہ پیسے لیتے ہیں۔

بیل گاڑی چلانے والے بالیشورو مہتو اور بالدیو مہتو نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ بے روزگار ہو گئے تھے تو بیل گاڑی نے روزگار دے دیا ہے۔ ان دنوں اچھی مانگ آرہی ہے لوگ چاول،بھونسا اور سبزی وغیرہ ڈھلائی کرا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:

عید پر کورونا کا سایہ: عید کی نماز گھروں میں ادا کی گئی

ویسے تو دن بھر میں ایک بار ہی کرایہ ملتا ہے لیکن ان دنوں دن بھر میں دو پھیرے لگا لیتے ہیں تو 600 سے 700 روپے تک کی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور بیل گاڑی چلانے والے رتن نے بتایا کہ وہ تو پہلے سے بیل گاڑی چلاتے تھے لیکن ان دنوں گاؤں کے باہر چلا رہے ہیں۔ آمدنی یا ایک بار کا کرایہ 250 سے 300 روپے انہیں مل جاتے ہیں۔

Last Updated : May 15, 2021, 9:56 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.