نتیا نند پروگرام کے طے شدہ وقت سے تین گھنٹے تاخیر سے پہنچے جس کی وجہ سے نصف سے زائد کارکنان واپس چلے گئے اور ہال خالی ہو گیا تھا۔
پروگرام میں تمام مقررین نے دفعہ 370 خاتمے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے اس فیصلے پر تعریفوں کے پل باندھے اور جذباتی انداز میں کشمیر ہمارا ہے، پاکستان کو نیست و نابود کر دیں گے جسیے نعرے لگائے لیکن کسی نے بھی وہاں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی یا شاید وہ بھی وہاں کی صورتحال سے واقف نہیں ہیں۔
نتیا نند کے خطاب کے بعد جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے پورے خطاب میں صرف کشمیر اور آرٹیکل 370 کے بارے میں ہی گفتگو کی لیکن وہاں کے باشندگان کی حالت اس وقت کیا ہے اس تعلق سے کوئی گفتگو نہیں کی تو وزیر موصوف اس سوال کے جواب پر بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
نمائندے کے بار بار اصرار کرنے پر بھی وہ جواب دینے سے کتراتے رہے اور آخر میں وہ کسی بھی میڈیا نمائندے کے سوال کا جواب دئے بغیر ہی وہاں سے نکل گئے۔
اسٹیج پر موجود وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیا نند رائے سے امید کی جا رہی تھی کہ وہ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے اور عوام کو جموں و کشمیر کی صحیح صورتحال سے بھی آگاہ کریں گے تا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کی پابندی کے بعد کشمیر اور وہاں کی پریشانیوں کے حوالے سے جو خبریں گردش کر رہی تھیں وہ وزیر موصوف کے زبانی صاف ہو لیکن نتیا نند کی پوری تقریر کا محور مرکز آرٹیکل 370 کی منسوخی پر وزیراعظم کو ملنے والی شاباشی تھا جبکہ انہوں نے جموں و کشمیر کی موجودہ موجودہ صورتحال کے بارے میں نہرو کو مورد الزام ٹھہرایا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہے کسی بھی پارٹی کا رکن جب وزیر کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو وہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ ملک کا نمائندہ ہوتا ہے، ایسے میں اگر صحافی کے سوال کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے تو اس پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔