وزیر تعلیم کرشنندن ورما آج قانون ساز کونسل میں اپنی ہی جماعت اور حمایتی جماعت کے اراکین کے گھیرے میں آگئے جب جے ڈی یو کے رکن قانون ساز کونسل تنویر اختر نے 2015 میں بہار اسکول ایگزامنیشن بورڈ کے ذریعہ ایک طالبات کے ساتھ ناانصافی کا سوال اٹھایا۔
تنویر اختر نے توجہ طلب نوٹس کے ذریعہ حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کے ہائی اسکول کے ثانوی امتحان میں پاس ہونے والی سونی کماری نے اپنے نمبر سے غیرمطمئن ہونے کے سبب ہندی اور سائنس کے مضمون میں اعتراض درج کیا تھا جبکہ سونی کماری کو ریاضی مضمون میں ملے 78 نمبر کو گھٹا کر 38 کردیا گیا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر تعلیم نے اسے سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ غلطی ہوئی لیکن یہ معاملہ 2015 کا ہے اسے ہم دیکھیں گے اتنا سنتے ہی بی جے پی اور جے ڈی یو کے کئی اراکین نے وزیر تعلیم کو ایوان میں واضح بیان دینے اور اس کی تحقیقات کرا کر اس طالبہ کو انصاف دلانے کی بات کہی بہت دیر تک ہنگامہ ہوتا رہا آخر تک اراکین ان کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔
وزیرتعلیم کرشنا نور مانے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے 2015 کا یہ معاملہ ہے اس بچی نے دو مضمون میں اعتراض کیا تھا قاعدے سے تو دو ہی مضمون کی جانچ ہونی چاہیے لیکن کہاں سے گڑ بڑی ہوئی ہے کون اس کے لئے ذمہ دار ہے اس نے ریاضی مضمون کے لئے اعتراض درج نہیں کیا تھا لیکن اس میں بھی جانچ ہوگئی اور اس کا نمبر کم کر دیا گیا تو یہ گمبھیر بات ہے ہم لوگ اس کی تحقیقات کریں گے تحقیقات میں جو معاملہ آئے گا اسے درست کیا جائے ہم نے جب کہا کہ اس کی تحقیقات کرائی جائے گی تو کئی اراکین نے کہا کہ اس کی تحقیقات محکمہ کے پرنسپل سیکریٹری سے کرائی جائے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی پارٹی اور اتحادی جماعت کے اراکین آپ کے جواب سے مطمئن نہیں تھے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ اپنا ہو ان کا وقت برباد کرنا چاہتے ہیں انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ قابل اور دانشور لوگ ہیں
پروفیسر نول کشور یادو نے واضح طور پر کہا کہ وہ وزیر تعلیم اور ایوان کی کارکردگی سے بھی خوش نہیں ہیں جمہوری نظام میں انصاف کا کوئی نظم ہے کہ نہیں یہ لوگ صرف کہتے ہیں کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاو اور بیٹی اپنے نمبر کے لیے اعتراض کرے تو اس کے کے دوسرے مضمون کے نمبر کو کاٹ دیا جائے یے یہ ایک بیٹی کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے اور ایسے کئی طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی ہے اسی لئے پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار اسکول ایگزامینشن بورڈ کے چیئرمین کے خلاف دو بار ایک ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھا اگر کوئی اخبار ان کے خلاف حقیقت لکھتا ہے تو اس کے خلاف دوسرے اخبار میں اشتہار دیا جا رہا ہے اسی طرح اس بچی نے کسی دوسرے مضمون میں اعتراض درج کیا تھا لیکن اس کو سزا دینے کے لئے اس کے ریاضی کے مضمون کا نمبر78 سے کاٹ کر 38 کردیا گیا یہ انتہائی ناانصافی ہے غریب کے بچوں کو نہیں پڑھنے دینے کا طریقہ ہے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وزیر تعلیم کا بیان گھاس پھوس کی طرح ہے اس بچی کو انصاف نہیں مل سکتا بہار اسکول ایگزامنیشن بورڈ صرف پیسہ وصولنے کا ادارہ ہے.