بہار کے نئے چیف سکریٹری عامر سبحانی Amir Subhani New Chief Secretary of Bihar کی ریاست میں اردو دوست کے طور پر بھی ایک بڑی پہچان ہے، ریاست کے اعلیٰ ترین بیوروکریٹ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کیا وہ ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ اور لازمیت بحال کرپائیں گے؟
کیا اب ان کے چیف سکریٹری بننے کے بعد سرکاری اداروں میں اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر روک لگے گی؟انہی سوالوں پر ضلع گیا کے اردو کے دانشوروں اور ادیبوں Urdu Intellectuals And Writers نے اپنے تاثرات میں کہا ہے کہ عامر سبحانی سے توقعات وابستہ ہیں کہ اردو زبان ریاست کی دوسری زبان ہونے کے باوجود اردو اب بھی بیگانہ ہی ہے، خاص طور پر سرکاری دفاتر اور اداروں میں اردو کو ایک خاص فرقے سے جوڑ کر دیکھنے کی ایک روایت قائم ہوگئی ہے۔
اردو ایڈوائزری کمیٹی، اردو اکادمی بہار کے سابق رکن اور معروف ادیب و مصنف ڈاکٹر سید احمد قادری نے کہا کہ موجودہ چیف سکریٹری عامر سبحانی محب اردو ہیں۔ اردو کے تعلق سے ان کے پاس حکومت کے وعدے کو پورا کرنے اور کروانے کا ایک بہترین موقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ چیف سکریٹری حکومت کی وہ اسکیم اور ہدایت جو اردو زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے ہیں اس کو بھی دیگر منصوبوں کی طرح وہ زمینی سطح پر اتارنے اور ادھورے کاموں میں تیزی لانے کی کوشش کریں گے۔ خاص طور پر گزشتہ سنہ 2020 میں جس طرح سے ابتدائی تعلیم میں اردو کی لازمیت ختم کرکے اختیاری مضمون کیا گیا ہے۔ وہ بلا تمہید محکمہ تعلیم کو دوبارہ سے لازمیت بحال کرنے کی ہدایت دیں گے اور ساتھ ہی برسوں سے اردو اکادمی اور اردو ایڈوائزری کمیٹی نہیں بنی ہے۔
اس کو بنوانے میں تعاون پیش کریں گے۔ جبکہ اس سلسلے میں کانگریس کے میڈیا سیل کے ریاستی نائب صدر ڈاکٹر خالد امین کہتے ہیں کہ عامر سبحانی کا بیک گراؤنڈ اردو سے جڑا ہوا ہے۔ عامر سبحانی سے توقع ہے کہ وہ مکھوٹا بنکر نہیں رہیں گے بلکہ وہ زبان اور اردو برادری دونوں کے ساتھ سرکاری دفاتر میں سبگتگی کا احساس کرایا جاتا ہے۔
اس کو ختم کرائیں گے اردو کا تحفظ اور فروغ کسی قوم کا فروغ نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کی ترقی اور اسکے قوانین کا بہتر ڈھنگ سے نفاذ ہے کیونکہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے دفتروں میں اردو کا ماحول اس سلسلے میں بھی ضروری ہے کیونکہ یہ سرکاری قانون کا نفاذ ہے اور ساتھ ہی وہ ریاست کی دوسری سرکاری زبان کو سی بی ایس سی بورڈ میں نافذ کرانے کی پہل کرسکتے ہیں۔
اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ دانش کہتے ہیں کہ عامر سبحانی پہلے بھی اردو کے ڈیولپمینٹ کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ متعدد مرتبہ سرکار کا مکتوب اور منشا کے مطابق اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے لیٹر جاری کرچکے ہیں۔
سنہ 2020 کے انکے لیٹر کے بعد سرکاری دفاتر میں ایک تبدیلی یہ دیکھی گئی ہے کہ اردو میں سائن بورڈ نام کی تختیاں لگی ہیں اردو میں درخواست دینے کے بعد قبول کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کوششوں کے ساتھ خود کی کوشش بھی لازمی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور کام کاج میں اردو کو شامل کریں۔
مرزا غالب کالج کی ایک اور پروفیسر شفقت رانا نے کہا کہ چیف سکریٹری کا عہدہ ایک باوقار اور ایماندار ومحنتی افسر کے ہاتھوں میں ہے اردو کے فروغ کے تئیں عامر سبحانی حساس ہوتے ہیں اب امید ہے کہ بہار میں سرکاری دفاتر میں اردو ایک بار پھر سے اپنے کھوئے مقام حاصل کرے گی جبکہ اس سلسلے میں معروف صحافی سراج انور کہتے ہیں کہ عامر سبحانی بننے کی کہانی ایک اردو اخبار سے ہی شروع ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے دوران کچھ دنوں کے لیے بہار کی اردو تحریک کے علم برداروں میں سے ایک غلام سرور کا روزنامہ سنگم میں صحافتی خدمات انجام دی تھیں اس مناسبت سے ان کو اردو دوست تسلیم کیا جا سکتا ہے اور انہیں ماہر اردو مانا جاتا ہے۔
اقلیتی فلاح سے لے کر کئی محکموں کی انہوں نے کایا پلٹ کر دی ہے جنون کی حد تک کام کرنے کے عادی ہیں اب انہیں ایک ایسے عہدے پر فائز کیا گیا ہے جہاں کام کرنے کے اور بھی مواقع ہیں انصاف کے ساتھ بہار کی ترقی کا خاکہ تیار کرنے کے ساتھ اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے میں بھی اہم کردار ہوگا۔ حقیقت ہے یہ ہے کہ بہار کی دوسری زبان ہونے کے باوجود ریاست میں اردو اب بھی بیگانہ ہی ہے۔
اعلیٰ عہدے پر فائز تعصب پرست افسران کے ذریعے اردو کو مٹانے کی سازش چل رہی ہے سرکاری دفاتر میں اردو کا نفاذ مکمل طور سے نہیں ہے امید کی جانی چاہیے کہ عامر سبحانی اردو کے تحفظات کے لیے عملی اقدام اٹھائیں گے اور ایک اردو دوست ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔ اردو کی بحالی سے حکومت کو بھی اردو داں طبقہ میں سرخروئی کا موقع فراہم ہوگا۔