لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سے ان کا کام دھندہ بند ہے اور اب معاشی تنگی نے ان لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہےکہ لاک ڈاؤن میں نہ ہی وہ کام کر پا رہے ہیں اور نہ حکومت یا ان کے نمائندوں کی طرف سے کوئی مدد مل پائی ہے۔
یہ گاؤں بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے نہ نالی ہے اور نہ ہی پختہ سڑک۔ بس کسی طرح زندگی ان کی کٹ رہی ہے۔ ان لوگوں کو کورونا وبا کی خطرناکی کا علم ہے لیکن چند لوگ ہی اپنے چہرے پر ماسک پہنے نظر آئے۔
دراصل ہر گزرتے دن کے ساتھ ان لوگوں کو بیماری سے زیادہ پیٹ میں لگنے والی بھوک ستانے لگی ہے۔ پہلے ہی قومی ترقی میں حاشیے پر پڑے ان لوگوں کو ایک خوف ستا رہا ہے کہ اگر 14 دنوں کے بعد بھی لاک ڈاؤن میں توسیع ہوگئی تو وہ اپنی بھوک کیسے مٹا پائیں گے؟
حکومت نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک لاکھ ستر ہزار کروڑ روپئے مختص کیا ہے، غریب لوگوں کو تین مہینے کا راشن دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ان لوگوں کو نہ ہی ایک پھوٹی کوڑی ملی ہے اور نہ ہی لاک ڈاؤن کے نام پر راشن کا ایک دانا نصیب ہوا ہے۔
اس کے باجود یہ لوگ لاک ڈاؤن پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں لیکن سوال اٹھتا ہے کہ یہ لوگ بھوک کب تک برداشت کر پائیں گے؟
آپ کو بتا دیں کہ بھاگلپور میں دو دن قبل ہی کورونا کا پہلا پازیٹیو کیس سامنے آیا ہے جس کے بعد انتظامیہ نے چوکسی مزید بڑھا دی ہے۔