یوں تو پٹنہ میں بھیکاریوں کی کوئی صحیح تعداد نہیں ہے۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق دارالحکومت پٹنہ میں آٹھ سے 10 ہزار بھیکاری ہیں۔ اکیلے مہاویر مندر کے آس پاس علاقے میں ایک ہزار 500 بھیکاری ہیں۔ جو مندر آنے جانے والے عقیدت مندوں سے بھیک مانگ کر زندگی گزار رہے ہیں۔
بھیک مانگنے والوں سے جب ای ٹی وی بھارت نے بات کی تو بھیکاریوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ 15 برسوں سے مانگ کر زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔ وہیں کچھ اپنے کنبے کے ساتھ بھی دکھائی دیے، ان میں زیادہ تر نوجوان بھی تھے۔
سونو نامی بھیکاری نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران آپ جیسے ہی لوگ ہی آکر کچھ کھانے پینے کو دے جاتے تھے، ورنہ ہم ایک وقت کا کھانہ کھا کر ہی سو جاتے تھے۔
بھیک مانگنے والی ایک خاتون نے کہا کہ ہاں، اس نے ماسک کے بارے میں سنا ہے۔ لیکن اسے نہیں معلوم کہ سینیٹائزر کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے سبھی بھیکاریوں کو صابن سے ہاتھ دھونے اور سماجی دوری کی پوری جانکاری دیتے ہوئے کورونا انفیکش کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
بھیکاریوں کے مطابق وہ ہر روز 100 سے 300 روپیے بھیک مانگ کر جمع کر لیتے ہیں، اسی سے ان کی زندگی چلتی تھی۔ کچھ سکے خریدنے والے بھی آجاتے ہیں تو 100 کے بدلے 110 روپیے دے جاتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران ہر طرف ویرانی پھیلی ہے۔
اب ان لاک ون کے بعد ان لاک 2 بھی نافذ ہو گیا، لیکن پیسہ کوئی نہیں دے رہا ہے۔ کھانے کو جیسے تیسے مل رہا ہے۔
بھیکاریوں نے مانا کہ ان لاک ہونے سے مذہبی مقامات کو کھولا گیا ہے۔ اس سے ان کو بھیک ملنے کی امید ہے، لیکن عقیدت مند پہلے کی طرح نہیں آ رہے ہیں۔
بہرحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی جانکاری انہیں ہے، لیکن ان کی زندگی سوشل ڈسٹینسنگ سے نہیں چل سکتی ہے۔ بھیک مانگنا ہے تو لوگوں سے ملنا ہی پڑے گا ہی۔ ڈر تو اس بات کا صرف ہے کہ کہیں، بھیک میں انہیں کوئی کورونا نا دے جائے۔
ایسے میں حکومت اور انتظامیہ کو بھی ان کی جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کہ بھیکاریوں کو کورونا سے دور رکھا جا سکے۔