خالی وقت میں وہ غریبوں میں تقسیم کرنے کیلئے ماسک بنا رہی ہیں۔ گلشن خانم کے مطابق گھر کا خرچ بیوٹی پارلر سے ہونے والی آمدنی سے پر ہی منحصر ہے، ایسے میں پارلر بند ہونے کی وجہ سے گھر کی معاشی حالت پر برا اثر پڑا ہے۔
گلشن خانم نے شوہر کی معاشی تنگی کو دیکھتے ہوئے سنہ 2003 میں بیوٹی پارلر کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت اس علاقے میں ان کا اکلوتا بیوٹی پارلر ہوا کرتا تھا اور کافی کسٹمر آتے تھے۔
اپنے بیوٹی پارلر میں کئی کاریگروں کو بھی رکھتی تھیں، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد بند پڑے بیوٹی پارلر کی وجہ سے ان کی دکان میں کام کرنے والی دیگر میک اپ آرٹسٹوں کی طرح سینکڑوں عورتیں بے روزگار ہوگئیں ہیں۔ اور گلشن خانم جیسی بیوٹی پارلر مالکان اور سیلون مالکان کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا کاروبار معمول پر آنے میں کتنا وقت لگے گا۔
![گلشن خانم](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/br-bgp-01-beauty-parlour-pkg-10001_12052020210813_1205f_1589297893_688.jpg)
پورے بھاگلپور شہر میں درجنوں بیوٹی پارلر اور جینس پارلر ہیں۔ جو لاک ڈاؤن کے بعد سے بند پڑے ہیں، حکومت نے دیگر کچھ دکانوں کو باری باری سے کھولنے کی اجازت دے دی ہے لیکن بیوٹی پارلر، اور جینس پارلرکھولنے کی ابھی تک اجازت نہیں دی گئی ہے، کیونکہ کئی ایسی مثالیں ہیں جس سے ثابت ہوا کہ سیلون سے کورونا پھیلنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔
جس کی وجہ سے گلشن خانم جیسے لوگوں کی معاشی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے، لہذا ان لوگوں کی مانگ ہے کہ حکومت اس طرف توجہ دے۔