پٹنہ: ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ مین بزمِ صدف انٹرنیشنل کے عالمی سمینار کو خطاب کرتے ہوئے منعقدہ قطر کی معروف سماجی اور تعلیمی شخصیت جناب حسن عبد الکریم چوگلے نے کہاکہ اپنے معاشرے کو اگر ہمیں بدلنا ہے اور بہتر تبدیلی چاہتے ہیں تو تعلیم سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اردو زبان کے چاہنے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ سماج کو تعلیم کی روشنی سے مالا مال کریں اور سب سے بڑھ کر کتابوں کی تصنیف اور تالیف کے ساتھ اُن کی اشاعت پر خصوصی توجہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر طبقے اور ہر کام کے لئے ہماری زبان میں کتابوں کا ایک سلسلہ ہونا چاہیے۔ بزمِ صدف نے یہ اچھا کام کیا کہ مشاعروں کے ساتھ سے سمینار، عوامی فلاحی کاموں کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اِس کے اثرات دیر پا ہوں گے اور سماج کو اِس سے بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔
عالمی تہذیب و ثقافت کے موضوع کے حوالے سے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر اور معروف نقّاد پروفیسر صفدر امام قادری نے بتایا کہ زبانوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا طَور اردو کے آغاز کے زمانے سے ہی ملتا رہا ہے۔ ساتویں صدی سے بارہویں صدی کے دَوران ہندستان میں جو لسانی اشتراک اور لین دین کا ماحول تیّار ہوا۔ اُسی کا ایک خوش گوار نتیجہ اردو کی پیدایش بھی ہے۔ اِس سے پہلے سنسکرت یا پراکرت یا دراویڈی زبانوں میں اشتراک کا کوئی عمومی سلیقہ نظر نہیں آتا تھا۔ زبانیں عوامی اور سیاسی یا مذہبی جاگیروں کی طرح خانہ بندی میں اُس زمانے تک نظر آتی ہیں مگر جس زمانے میں اردو کی تشکیل ہو رہی ہے، اُس عہد میں ایک خاص روادارانہ شعور پیدا ہوتا ہوا نظر آتا ہے جسے پوری علمی دنیا نے امیر خسرو کی شخصیت اور شکل میں پہچانا۔
بزمِ صدف کے چیر مین شہاب الدین احمد نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ بزمِ صدف اپنے علمی و ادبی اور ترویج و اشاعت کے کام میں کل وقتی طَور پر لگی ہوئی ہے۔ بزمِ صدف کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اردو زبان کی عالمی حیثیت کے شواہد ہر محفل میں پیش کئے جائیں۔ زبانوں سے قوموں کامزاج سمجھ میں آتا ہے۔ اردو برِّ صغیر ہی نہیں عالمی طَور پر امن اور اخوت کے اوصاف کو عام کرنے کے لئے کوشاں رہی ہے۔
کلیدی خطبے کے بعد معروف افسانہ نگار داکٹر شکیل کی صدارت میں پینل ڈسکشن کا سلسلہ شروع ہوا اور ناظمِ مجلس نے ماہرین سے گزارش کی کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کے حوالے سے مذاکرے کے علمی دایرۂ کار میں توسیع کریں۔
بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ شاعرہ شاہدہ حسن نے پاکستان اور کینیڈا میں اردو کی مجلسوں کے حوالے سے بتایا کہ اردو سے دُوری کے باوجود ذاتی کوششوں سے نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کرنے کی ہماری کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے برِّ صغیر سے مختلف علاقوں میں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، وہ اپنے انوکھے پن کی وجہ سے قابلِ اعتنا ہے۔
صدف نئی نسل ایوارڈ یافتہ شاعرہ اور نقّاد ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے اوّلاً تانیثی ترجیحات کو موضوعِ بحث بنایا۔ یہ واضح کرنے میں کامیابی پائی کہ ایک عالمی ماحول میں ہی اِس انداز کا نیا ادب تخلیق پا سکتا ہے جیسا فی زمانہ ہے۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں جوکچھ لکھا پڑھا جا رہا ہے، اس کا احتساب لازم ہے۔
مزید پڑھیں:Darbhanga Krishna Hospital دربھنگہ کرشنا ہسپتال کا افتتاح
جرمنی سے تشریف فرما محترمہ امۃالمنّان طاہر نے اپنی طویل تدریسی زندگی کے تجریبات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں مختلف تعلیمی اداروں میں اردو کی تدریس کے لئے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ حرف شناسی سے لے کر ترجمہ اور تنقید و تحقیق کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں جرمن نژاد طالب علم اور استاد بھی اِس میدان میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
اس موقعے پر ممتاز مزاحیہ شاعر جناب خالد عرفان، شاعر حسن کاظمی، پروفیسر سید جاوید زیدی، پروفیسر صوفیہ بخاری، مسعود حساس، ڈاکٹر گوہر نے بھی اظہار خیال کیا. مذاکرے کی نظامت مشترکہ طور پر شاعر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی اور احمد اشفاق،پروگرام ڈائرکٹر بزمِ صدف کر رہے تھے۔