علامہ اسرار جامعی کا وطنی تعلق بہار کے عظیم آباد سے تھا مگر عرصہ دراز سے آپ دہلی میں مقیم تھے اور وہیں ادبی خدمات انجام دے رہے تھے۔
آپ کا شمار طنز و مزاح کے چنندہ شاعروں میں تھا، آپ کی شاعرانہ عظمت کا قائل اردو ادب کے بڑے سے بڑے ادباء و شعرأ رہے ہیں۔
اسرار جامعی کے انتقال سے ارریہ کا ادبی حلقہ بھی سوگوار ہے، یہاں کے ادباء اپنے اپنے طریقے سے اسرار جامعی کی خدمات کو یاد کر انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں
معروف شاعر رضی احمد تنہا نے کہا کہ 'علامہ اسرار جامعی جیسا شاعر دبستان عظیم آباد کو دوسرا نہیں ملے گا، طنز و مزاح کے حوالے سے آپ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ معاشرے میں پیش آنے والے مسائل کو آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ حکومت وقت تک پہنچانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے'۔
پروفیسر دین رضا اختر نے کہا کہ 'علامہ اسرار جامعی کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت ان بیانیہ طنز ہے، وہ چھوٹے چھوٹے بحر میں بھی اپنی مکمل بات کہہ جاتے ہیں اور اس چھوٹے بحر میں بھی مزاح پیدا کرتے ہیں، آپ نے جس تواضع اور سادگی سے زندگی گزاری ہے وہ ایک نمونہ ہے'۔
صحافی و ادیب پرویز عالم نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کا پورا گھرانہ تعلیم یافتہ تھا، والد ولی الحق ایک تعلیم یافتہ اور باذوق انسان تھے، داد محمد کلیم بہار کے مشہور صحافی اور سر سید احمد خان کے ہمعصر تھے، آپ نے خود جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اعلیٰ ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی، جامعہ کے استاذ اور بعد میں ہندوستان کے صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین کے آپ عزیز ترین شاگردوں میں سے تھے'۔
رہبان علی راکیش نے کہا کہ 'اسرار جامعی عظیم شاعر رضا نقوی واہی کے شاگرد تھے، واہی صاحب سے ہی آپ نے اپنے کلام پر اصلاح لی اور عظیم شاعر ہوئے. واہی صاحب نے ہی آپ کو علامہ کے لقب سے سرفراز کیا'۔
رضا نقوی واہی نے آپ کے شان میں ایک نظم بھی کہی تھی
فخر عظیم آباد ہیں اسرار جامعی
اس دور نو کے شاد ہیں اسرار جامعی
ترشی ہوئی ہے فکر تو نکھرا ہوا ہے کلام
خوش گو ہیں خوش نہاد ہیں اسرار جامعی
اسرار جامعی کے انتقال پر ہارون رشید غافل، شمس الہدی معصوم، زبیر الحسن غافل، حسین احمد ہمدم، مفتی ہمایوں اقبال ندوی ،مفتی اطہر القاسمی، عبد الغنی وغیرہ نے بھی غم کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی۔