بہار: ضلع گیا میں مرکزی حکومت کے محکمہ اقلیتی فلاح سے قرض لیکر رقم جمع نہیں کرنے والوں پر کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ حالانکہ یہ اسکیم 2011 میں ہی بند ہوچکی ہے، تاہم اس کے استفادہ کنندگان جو قرض کی رقم ادا نہیں کررہے تھے۔ اُن پر محکمہ نے مقدمہ درج کراکر کاروائی شروع کردی ہے اور ان ڈیفالٹروں کے خلاف عدالت سے وارنٹ جاری کردیا گیا ہے۔ گیا میں بھی کئی ایسے شخص ہیں جن کے خلاف وارنٹ جاری ہوا ہے۔
حالانکہ ان میں کچھ نادہندگان نے وارنٹ جاری ہونے کے بعد 32000 ہزار قرض کی رقم کے عوض میں 1 لاکھ 9 ہزار روپیہ جمع کیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف قرض استفادہ کنندگان رقم جمع کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، بلکہ محکمہ کی بڑی بے توجہی بھی اس میں ہے۔ ایک استفادہ کنندہ محمد سراج بتاتے ہیں کہ گزشتہ 15 برسوں سے ایک بار بھی قرض کی ماہانہ قسط کی رقم لینے والا فرد ان تک نہیں پہنچا ہے، چونکہ اُنہوں نے قومی اقلیتی ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ 'کے تحت' ٹرم لون یوجنا ' کے نام سے جاری اسکیم سے 2004 میں ٹیلرننگ کام کے لیے 32000 ہزار روپے بطور قرض لیا تھا اور اس میں قسط کی رقم نقد دینے کا انتظام تھا۔
اس وجہ سے وہ نقد رقم جمع کررہے تھے۔ شروع میں محکمہ کا ایک شخص قسط کی رقم لینے ان کی دکان تک آتا تھا لیکن اچانک اس شخص کا انتقال ہوگیا اور اسکے بعد پندرہ برسوں تک کوئی رقم لینے نہیں آیا۔ یہاں ضلع کلکٹریٹ میں محکمہ کی اسوقت آفس نہیں تھی اور نا ہی کوئی افسر تھا۔ اس وجہ سے وہ بھی اس قرض کی حساسیت کو سمجھ نہیں پائے اور رقم جمع نہیں کرسکے۔
محکمہ نے 2011 میں درج کرایا تھا مقدمہ
محمد سراج نے بتایاکہ محکمہ اقلیتی فلاح بہار کی جانب سے قرض نادہندہ کی فہرست میں شامل کر اُن پر سنہ 2011 میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ کچھ سالوں میں جب انہیں اسکی اطلاع ملی تو اُنہوں نے محکمہ کے ضلعی دفتر سے رابطہ کیا اور رقم دینے کی رضا مندی کا اظہار کیا، حالانکہ اس دوران اُن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہوگیا تھا۔ اب اُنہوں نے قرض کی 32 ہزار رقم کے ساتھ سود کی کل رقم ملا کر 1 لاکھ 9 ہزار روپیہ جمع کیا ہے۔
محکمہ کی جانب سے کوئی واجبات نہیں 'نو ڈیوز' سرٹیفکیٹ دی گئی ہے۔ جسے وہ عدالت میں پیش کر ضمانت کی درخواست پیش کریں گے۔ حالانکہ اس 32 ہزار کی وجہ سے ان کا اب تک کیس اور آمد ورفت پٹنہ اور سود کی رقم کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ جبکہ اس حوالہ سے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن پٹنہ کے کمشنری انچارج دھرمیش کمار نے بھی بے توجہی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پہلے قرض وصولی کے لئے ضلع میں اس وقت دو شخص تھے، لیکن اس میں ایک کا سنہ 2005 کے بعد انتقال ہوگیا تھا۔
محکمہ کی جانب سے وصولی کی رفتار بھی سست تھی لیکن اب محکمہ کی جانب سے اس پر کڑائی کے ساتھ وصولی کے انتظامات بھی پختہ کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اس دوران قرض دہندگان کی نیت پر بھی سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم نے قرض لیا ہے، تو اس کی رقم واپس کرنی ہے۔ لیکن یہاں دیکھا یہ جاتا ہے کہ قرض لینے کے بعد لوگ خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ وصولی کرنے والے بارہا ان سے مل کر رقم جمع کرنے کو کہتے ہیں لیکن ان کی جانب سے رقم جمع نہیں کی جاتی ہے۔
مرکزی حکومت کا یہ منصوبہ تھا
مرکزی اقلیتی فلاح کے ماتحت قومی اقلیتی ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ کی جانب سے سنہ 2001 میں یہ اسکیم شروع ہوئی تھی۔ ضلع اور بہار میں مالی سال 2011 تک اس اسکیم کے تحت قرض کی رقم تقسیم کی گئی۔ اس کے بند ہونے پر مالی سال 2012 میں بہار حکومت نے وزیراعلی اقلیتی روزگار قرض منصوبہ پانچ فیصد شرح سود پر شروع کیا۔
دھرمیش کمار نے بتایاکہ مرکزی حکومت کی اسکیم کے تحت ضلع گیا میں چار سو سے زیادہ افراد استفادہ کنندگان تھے۔ جس میں اب تک 250 لوگوں پر مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ جس میں کچھ نے رقم جمع کرا کر نو آبجیکشن سرٹیفیکٹ حاصل کر لیا ہے حالانکہ دونوں اسکیمیں ٹرم لون یوجنا اور وزیراعلی اقلیتی روزگار قرض اسکیم اب بند ہو چکی ہیں تاہم قرض کی رقم وصولی کی رفتار بڑھادی گئی ہے۔ جو برسوں سے قسط جمع نہیں کررہے ہیں ان پر مقدمہ درج کرا کر کاروائی ہورہی ہے۔