پٹنہ: قاضی عبد الودود Qazi Abdul Wadud کا نام ادبی و لسانی تحقیق کے شعبہ میں نہایت معتبر اور مقتدر ہے۔ انہوں نے تحقیق کے میدان میں بڑی جاں فشانی اور عرق ریزی کے ساتھ کام کیا اور اصول تحقیق کے اعلیٰ معیار پر اپنی تخلیقی کاوشوں کو پیش کر کے اردو زبان میں معتبر و مستند تحقیق نگاری کی بہترین مثال قائم کی۔ مذکورہ باتیں اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام بہار ابھیلیکھ بھون کے کانفرنس ہال میں منعقد قاضی عبدالودود کی یادگاری تقریب میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہی۔
انہوں نے کہا کہ قاضی صاحب کی تحریروں کا امتیاز ہے کہ ان میں بے باکی اور غیر جانبداری تھی۔ قاضی صاحب کا نمایاں امتیاز متن کا براہ راست مطالعہ ہے۔ قاضی صاحب مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے تھے۔ وہ نام و نمود سے گریز کرتے تھے۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر ظفر کمالی نے قاضی عبد الودود کے تبصرے کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحب نے اپنے سے پہلے کے نقادوں سے اختلاف کیا لیکن اخلاقی پہلو کو بھی ملحوظ نظر رکھا۔ بعض لوگوں کی تحقیق کے تعلق سے بھی دلائل کے ساتھ اختلاف کیا اور کہا کہ ہماری محدود عقل واقعات کی صحت کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس یادگاری تقریب میں فخرالدین عارفی، نورالسلام ندوی نے بھی مقالہ پیش کیا۔ اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر احمد محمود نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو ڈائریکٹوریٹ کے زیر اہتمام سال میں 24 مرحومین ادبا و شعرا کی یادگاری تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ آج ہم لوگ قاضی عبد الودود کو ان کی خدمات اور کارنامے کے اعتراف میں انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔'
آنے والے دنوں میں ڈائریکٹوریٹ کا سب سے بڑا پروگرام جو کووڈ کے نظر رہا۔ اگر حکومت کی جانب سے اجازت ملتی ہے تو کوشش ہوگی مارچ کے آخری عشرہ میں 'جشن اردو' کے نام سے انعقاد کیا جائے گا۔'
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام سے یہ بھی بھرم ختم ہو رہا ہے کہ اردو کسی خاص طبقے یا فرقے کی زبان نہیں ہے، بلکہ اس زبان کو بلا قید مذہب و ملت ہر کوئی سیکھ سکتا ہے۔