شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے سوپور قصبہ کی صدیق کالونی کے تیس سالہ عرفان احمد ڈار جس کو جموں و کشمیر پولیس نے پندرہ ستمبر کو حراست میں لیا تھا اور اس کے بعد اس کی لاش کو تجر شریف گاؤں میں پایا گیا تھا، تحقیقاتی رپورٹ کی میں تاخیر ہو گئی ہے۔
بتا دیں کہ عرفان کی ہلاکت کے بعد قصبہ میں حالات کافی کشیدہ ہوئے تھے اور حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بارہمولہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ایک حکم نامہ جاری کر کے بیس دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا۔ تاہم ایک مہینہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔
اس معاملے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بارہمولہ احسان الحق نے بتایا کہ وہ "سیلف کورنٹین" میں تھے جبکہ اس کی گاڑی کا ڈرائیور کورونا مثبت پایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے رپورٹ تیار کرنے میں تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: سوپور : نوجوان کی ہلاکت کا پولیس پر الزام
عرفان احمد کے اہلخانہ نے انکوائری افسر کے سامنے اپنا بیان پہلے ہی درج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عرفان احمد بے گناہ تھا اور وہ کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں تھا۔ دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ کہ عرفان عسکریت پسندوں کا بالائی سطح کارکن (او جی ڈبلیو) تھا اور وہ حراست سے پوچھ تاچھ کے دوران فرار ہو گیا تھا۔
سوپور پولیس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا 'عسکریت پسند کے معاون کی لاش کو تجر شریف میں ایک پتھر کی کان کے قریب برآمد کیا گیا جہاں وہ پولیس کی ایک چھاپہ مار ٹیم کو چکمہ دیکر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا۔ مہلوک کی شناخت 23 سالہ عرفان احمد ڈار ولد محمد اکبر ڈار ساکن صدیق کالونی سوپور کے بطور ہوئی ہے'۔
غور طلب ہے کہ عرفان کی لاش تجر شریف گاؤں میں ایک پتھر کی کان میں پائی گئی تھی۔