بارہمولہ: شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے رفیع آباد علاقہ میں اتوار کے روز نیشنل کانفرنس پارٹی کے ایک جلسہ کا اہتمام کیا۔ اس جلسے میں پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ، پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صد ناصر اسلم وانی سمیت پارٹی کے دیگر سینیئر لیڈاران نے شرکت کی۔ اس جلسے میں کارکنان کی اچھی تعداد موجود تھی۔ اپنے خطاب میں عمر عبداللہ نے کہا”ٹھیک ہے کل سپریم کورٹ میں فیصلہ آنا ہے لیکن کیا ہمیں بند کرنا ضروری ہے ؟ کیا ہمارے پروگرام منسوخ کرنا ضروری ہے؟ کیا ہم نے کبھی ماحول بگاڑا ہے؟ کیا ہم نے کبھی نوجوانون سے کہا ہے کہ پتھر اُٹھاﺅ اور پھینکو؟ کیا ہم نے کبھی یہاں لوگوں سے کہا ہے کہ بندوق اُٹھاﺅ اور لڑو؟
انہوں نے کہا کہ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اُس وقت حضرتبل سے تقریر کی اور کہا کہ نوجوانوں اگر آپ کو فاروق عبداللہ پسند نہیں تو میں چلا جاﺅں گا لیکن یہ بندوق مت اُٹھاﺅ اس میں صرف اور صرف تباہی اور بربادی لکھی ہوئی ہے۔ تب سے لیکر آج تک 35 سال ہوگئے اور بار بار اُن کی یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے،بندوق نے تبادہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا، روزہم اپنے ہی کسی اپنے کو دفناتے ہیں، چاہئے اُس نے وردی پہنی ہو نہ پہنی ہو۔“
انہوں نے کہاکہ اگر ہمیں حالات بگاڑنے ہوتے تو ہم 2019بعد بگاڑتے،لیکن اُس وقت بھی کہا اور آج بھی کہتے ہیں، ہماری یہ لڑائی جتنے بھی دن چلے، ہم پُرامن طریقے سے آئینی طور پر قانونی کو ساتھ لیکر اپنے حقوق ، اپنی عزت ، اپنے وقار اور اپنی پہنچان کیلئے اپنی لڑئی جاری رکھیں گے۔ اس میں کیا غلط ہے؟ جب سپریم کورٹ نے ابھی فیصلہ سنایا بھی نہیں ، آپ ہمارے پیچھے کیوں لگ گئے، ممکن ہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا، پھرآپ کیا کریں گے؟کیا میرے ساتھیوں کو پولیس تھانے بلانا ضروری ہے۔
این سی نائب صدر نے الزام لگایا کہ کل رات سے میرے ساتھیوں کو پولیس تھانوں میں طلب کیا جارہاہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ سماجی رابطہ ویب سائٹوں پر یہ مت لکھو وہ مت لکھو، کیا آپ کی دھمکی صرف نیشنل کانفرنس کیلئے ہے،کیا آپ نے بی جے پی کے کسی لیڈر بلایا؟ اگر خدا نے چاہا اور فیصلہ اُن کیخلاف ہوا اور اس فیصلے کیخلاف وہ فیس بُک پر لکھنا شروع کریں گے، اُس وقت آپ کیا کریں گے؟ہمیں تو تھانے بلاکر دھمکیاں دیتے ہو اور اُنہیں سر پر چڑھا رکھا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ کون سی جمہوریت ہے؟“
عمر نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ گئے اور 2چار جماعتیں چھوڑ کر باقی سب بھی وہاں پہنچ گئے اور سب نے مل کر کوشش کی کہ 5اگست2019کو جو ہمارے ساتھ لوٹ ہوئی اور ہمیں جو دھوکہ دیا گیا وہ غیر آئینی اور غیر جمہوریت تھا۔ ”دو منٹ کیلئے مان کر چلتے ہیں کہ اگر کل سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھیں گے۔ بی جے پی کو 5اگست 2019 تک پہنچنے کیلئے 70سال لگے،اس سے پہلے سپریم کورٹ نے بھی دو فیصلے دفعہ370کے حق میں سنائے، کیا بی جے پی والوں نے اپنا موقف چھوڑا، کیا وہ پیچھے ہٹے؟ بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی لڑائی جاری رکھی۔کہنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم دل چھوٹا نہیں کریں گے، ہم مایوس نہیں ہونگے، ہم سر نہیں جکائیں گے، ہم پُرامن طریقے سے جمہوری، آئینی اور قانونی طریقے سے جموں وکشمیر کو وہ مقام حاصل کر کے رہیں گے، جو ہم سے چھینا گیا۔
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ ممکن ہے اس لڑائی میں ہمیں وقت لگے، کبھی کبھی صبر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، لیکن سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر اپنی بات سامنے رکھیں، ہمیں لوگوں کے جذبات کیساتھ کھلواڑ نہیں کرنا ہے، ہمیں لوگوں کو اُکسانا نہیں، ہمیں ماحول نہیں بگاڑنا ہے، ہمیں حکومت کو یہ بہانہ نہیں دینا ہے کہ وہ یہاں نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع کریں،ہمیں اپنے الفاظ سوچ سمجھ کے استعمال کرنے ہیں ، کہیں وہ ہماری جمہوری اور آئینی جدوجہد کے آڑے نہ آئیں۔“
مزید پڑھیں:
دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام کا مستقبل طے کرے گا: غلام نبی آزاد
عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ ایک دن ، ایک ہفتے اور ایک مہینے کی لڑائی نہیں ہے، راتوں رات اس کا حل نہیں ہوگا،لیکن انشاءاللہ اگر ہماری نیت صاف رہی اور ہمارے ارادے صحیح رہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں خود بہ خود راستہ دکھائے گا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کل یعنی 11 دسمبر کو آرٹیکل 370 کی عرضیوں کے حوالے سے فیصلہ سنایا گا۔ جیف جسٹس آف انڈیا ڈی وی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی پنچ نے اس کیس کے حوالے سے 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔