اوڑی بارہمولہ: شمالی ضلع بارہمولہ کے بونیار(چکنا ناگ ناری) علاقے میں پیر پھسل جانے کے نتیجے میں طالبہ دریائے جہلم میں غرقہ آب ہوئی۔لاش کی بازیابی کی خاطر ایس ڈی آر ایف نے آپریشن شروع کیا اور کچھ گھنٹوں کے بعد لاش کو برآمد کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق چکنا ناگاناڑی کی علاقے کی رہنے والی دسویں کلاس میں پڑھنے والی ایک طالبہ سکول جانے کے لیے نکلی تھی جب وہ ریزروائر کے نہر کے پاس گاڑی کا انتظار کر رہی تھی تو اچانک اس کا پیر پھسل گیا۔مقامی لوگوں نے لڑکی کو بچانے کی کوشش کی لیکن پانی کا بہاؤ تیز ہونے کی وجہ سے پانی میں سے ڈیم کی طرف بہا کر لے گیا
پولیس ، ایس ڈی آر ایف کی ٹیموں نے تلاشی آپریشن شروع کیا ہے۔ تحصیلدار اور ایس ڈی ایم اس آپریشن کی از خود نگرانی کی، چندد گھنٹوں کے بعد لاش کو بر آمد کر لیا گیا۔ قانونی لوزمات پورے کرنے کے بعد لاش کو لواحقین کے سپرد کر دیا گیا۔
اس حوالے سے لوگوں نے انتظامیہ کے خلاف کافی ناراضگی کا اظہار کیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو بار بار ڈیم کے اور فینسنگ کا مطالبہ کیا گیا تاہم فینسنگ وہاں کرائی گئی جہاں پر کم خطرہ ہے اور جس جگہ پر زیادہ خطرہ ہے وہان تو فینسنگ نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پونچھ ضلع میں مبینہ طور پر تین لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش کی۔اس حوالے سے پولیس کے ایک اہلکار نت بتایا کہ تین لڑکیوں نے شیر کشمیر پل سے مبینہ طور پر چھلانگ لگا دی۔اس دوران ایک لڑکی کی موت واقع ہوئی جبکہ ریسکیو آپریشن کے ذعیعے دو لڑکیوں کو بچا لیا گیا۔مقتول کی شناخت پونچھ کی رہنے والی آسیہ کوثر کے نام سے ہوئی ہے۔ پولیس نے اس سلسلے میں پونچھ پولیس اسٹیشن میں ایک کیس درج کر کے تحقیقات شروع کی۔
یہ بھی پڑھیں: Three Sisters Attempt Suicide, one Dead: تین لڑکیوں نے ایک ساتھ دریا میں چھلانگ لگائی، ایک کی موت
واضح رہے کہ وادی کشمیر میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان زندگی کی انمول نعمت کو چھوڑ کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ جہاں خودکشی کی خبر سنتے ہی ہر ایک انسان غم میں ڈوب جاتا ہے وہیں اس انتہائی اقدام کے وجوہات کا پتہ لگانے میں غیرمعمولی دلچسپی بھی لیتا ہے۔ ایک رپوٹ کے مطابق ملک میں سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں اور نوجوانوں میں خودکشی کے معاملات میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ اگرچہ جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں خودکشی کے واقعات نا کے برابر دیکھنے کو ملتے تھے لیکن گزشتہ برسوں میں یہاں بھی ان واقعات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔