بانڈی پورہ میں شبیر احمد نامی شخص گذشتہ 13 برسوں سے محکمہ سیری کلچر میں معمولی معاوضہ پر بحیثیت کیجول لیبر کام کررہا ہے۔ صرف اس امید کے ساتھ کہ کسی دن ریگولیشن کی پالیسی کے تحت انہیں مستقل کیا جائے گا اور مفلسی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ لیکن متعلقہ محکمے نے چند برس پہلے سرکار کی ہدایت پر کام کررہے کیجول ملازمین کی لسٹ تیار کی تو اس میں شبیر کا نام غائب تھا۔
انہوں نے اس سلسلے میں لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر سمیت متعلقہ محکمے کے ڈائریکٹر اور سابق ایم ایل اے سے متعدد دفعہ رابطہ کیا، تاہم اس لسٹ میں اپنا نام درج نہیں کروا سکے۔ شبیر احمد کی پوری امید پر پانی پھیر گیا ہے۔ شبیر اب انصاف کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں۔'
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں شبیر نے کہا کہ ان کے پاس سنہ 2007 سے اب تک کے تمام دستاویز موجود ہیں لیکن پھر بھی ان کا نام لسٹ سے غائب کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ' مذکورہ لسٹ مین کچھ ایسے افراد کے نام بھی شامل ہے جنہوں سنہ 2010 اور 2012 میں جوائنگ کی۔
مزید پڑھیں: دفعہ 370 ختم: جمہوریت، کشمیریت، انسانیت کا نظریہ کہاں گیا؟
انہوں نے محکمہ پر اقرباء پروری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ' مذکورہ لسٹ میں چند ایسے نام بھی شامل ہیں جن کے رشتہ دار متعلقہ محکمہ میں اعلی عہدے پر کام کررہے ہیں، جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو سیاسی یا دیگر اثر و رسوخ کے باعث لسٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔'
اس سلسلے میں جب ہم نے ڈسٹرکٹ سری کلچر افیسر بانڈی پورہ سے بات کی تو انہوں نے یہ قبول کیا کہ شبیر اتنے عرصے سے محکمے میں کام کر چکا ہے اور اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔'
انہوں نے یہ بھی قبول کیا کہ ایک ملازم کے بیٹے کو واقعی بحثیت کیجول رکھا گیا ہے اور اس کا نام لسٹ میں بھی شامل گیا ہے۔ تاہم یہ کیسے اور کیوں ہوا، اس پر ان کے پاس کوئی حتمی جواب نہیں تھا۔'