کووڈ-19 کے پھیلنے کی وجہ سے ہر کوئی خوفزدہ ہے اور اپنے گھروں تک محدود ہے لیکن شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں ایک جسمانی طور سے معذور شخص نے لوگوں کو کھانا پینا اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
بانڈی پورہ کے رہائشی محمد رفیق، جو محکمہ پولیس میں ملازمت کرتے ہیں سنہ 2002 میں گرینیڈ کے دھماکے میں شدید زخمی ہوئے جس میں ان کی دونوں ٹانگیں مفلج ہوگئیں۔
معذوری کے باوجود، رفیق کی ہمت کم نہیں ہوئی ہے اور وہ اب بھی پورے جوش و جذبے سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
وہ منی سکریٹریٹ کے احاطے کے اندر پولیس کینٹین چلا رہے ہیں، جسے دو سال قبل بانڈی پورہ میں سول اور پولیس انتظامیہ نے ان کے حوالے کیا تھا۔
رفیق احمد کے اس حوصلے اور انسانیت کو ہر کوئی سلام پیش کرتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق نے بتایا کہ بانڈی پورہ میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد وہ بانڈی پورہ ہیلتھ بلاک میں مختلف قرنطینہ کے مراکز کے لوگوں کو کھانا فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'جب یہ مہلک وبا پھیل رہی تھی، تو سب ڈر گئے تھے اور اپنے گھروں تک محدود ہو گئے تھے لیکن میں نے لوگوں کی خدمت جاری رکھی اور انتظامیہ کے ساتھ کھڑے ہو کر ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کرنے میں مصروف ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ 'جب ہر شخص ان لوگوں کے قریب جانے سے بھی خوفزدہ تھا تو ہم ان کے پاس بغیر کسی خوف کے گئے اور ان کی ضرورت پوری کی'۔
انہوں نے کہا کہ وہ منی سکریٹریٹ جانے والے لوگوں اور وہاں کے مختلف محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کے لئے پولیس کینٹین چلا رہے ہیں، لیکن کووڈ-19 کی وبا پھیل جانے کی وجہ سے انہیں بانڈی پورہ میں کورونا وائرس سے متاثر لوگوں کو کھانا فراہم کرنے کا کام سونپا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 'ابتدا میں ہمیں 1200 کے قریب لوگوں کو کھانا تیار کرنا پڑا، جب بانڈی پورہ میں پہلے کووڈ-19 کے معاملات کا پتہ چلا اور ان کے لئے یہ کام کرنا بہت مشکل تھا، لیکن ہماری ہمت کم نہیں ہوئی'۔
انہوں نے کہا کہ اس قرنطینہ میں کام کرنے والے افراد اس مہلک بیماری کے پھیلنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تھے اور وہ تنہا رہ گئے تھے، تاہم ان کے بیٹے نے انہیں سہارا دیا اور انہوں نے خود ہی قرنطینہ سنٹر چلایا۔
محسن، جو رفیق کا چھوٹا بیٹا ہے، نے اپنے والد کی مدد سے قرنطینہ لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنے میں ان کی مدد کی اور وہ ان مراکز میں تعینات قرنطین لوگوں اور ملازمین کو کھانا فراہم کیا ۔
محسن نے کہا کہ ان کے والد معذور ہیں، اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ضلع انتظامیہ کی مدد سے ان لوگوں کو رضاکارانہ طور پر کھانا فراہم کیا جن کو اس کی ضرورت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے رمضان کے مہینے میں بھی لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ 'مجھے اپنے والد پر فخر ہے کیونکہ جب کووڈ-19 کے مشتبہ افراد سے بھاگ رہا تھا تو وہ وہاں موجود تھے'۔ محسن نے کہا، 'انہیں ہر دن دو وقت کا کھانا ملتا ہے'۔
رفیق نے کہا کہ 'یہ بیماری ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی لیکن جو چیز یاد رکھی جائے گی وہ لوگوں کے ساتھ کیا گیا سلوک'
انہوں نے کہا کہ 'ہم ان لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے جن کو انتظامیہ نے قرنطینہ میں رکھا تھا۔ ہم نے جتنا ممکن ہو سکے کام کیا'۔ رفیق احمد کے اس حوصلے اور انسانیت کو ہر کوئی سلام پیش کرتا ہے۔