ETV Bharat / state

این آر سی میں کب اور کیسے تبدیلیاں ہوئیں

سنہ 1951 کے بعد آسام این آر سی کی قطعی فہرست کی اشاعت کی گئی، جس میں 19 لاکھ کے قریب افراد کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے دیا گیا۔

این آر سی میں کب اور کیسے تبدیلیاں ہوئیں
author img

By

Published : Aug 31, 2019, 9:28 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 12:23 AM IST

گزشتہ برس 30 جولائی کو این آر سی کا قطعی ڈرافٹ شائع کیا گیا جس میں 2.89 کروڑ افراد کے نام شامل تھے اور 40 لاکھ افراد کا نام غائب تھا۔

تفصیلات یہاں پڑھیں!

19 جولائی 1948میں مغربی پاکستان سے آنے والے افراد پر روک لگانے کا آرڈینینس منظور کیا گیا، 8 اپریل 1950 میں پنڈت نہرو اور لیاقت علی کے مابین معاہدہ ہوا۔ یکم مارچ 1950 میں پناہ گزینوں کو ریاست سے بے دخل کرنے کا ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے بعد سنہ 1951 میں آزاد بھارت کی پہلی مردم شماری ہوئی اور آسام کا این آر سی مکمل ہوا۔30 دسمبر 1955 میں شہریت قانون نافذ کیا گیا۔

این آر سی میں کب اور کیسے تبدیلیاں ہوئیں

سنہ 1957 میں پناہ گزينوں کی بے دخلی سے متعلق قانون کو منسوخ کیا گيا، 24 اکتوبر 1960 میں ریاستی اسمبلی میں آسامی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، 19 مئی 1961 آسام کی بارک ویلی سے بنگالی زبان کی تحریک کا آغاز ہوا۔ 1961 تا 1996 میں مشرقی پاکستانی شہریوں کی دراندازی کے انسداد قانون کے تحت ہزاروں مشرقی پاکستانی پناہ گزینوں کو آسام چھوڑنے پر مجبور کیا گيا۔

سنہ 1964 میں مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں بنگالی ہندوں کی آسام آمد پر فسادات پھوٹ پڑے۔ 23 ستمبر 1964 میں مرکز نے خارجی امور کے ایک ایکٹ کے تحت 'فارنرز ٹرائبیونل 1964' جاری کیا۔ 1965 میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان بڑی تعداد میں پناہ گزین داخل ہوئی، جبکہ 8 اگست 1967 کو 'آل آسام طلبا یونین' کا قیام عمل میں آيا۔ 1967 میں بارک وادی کے تین اضلاع میں بنگلہ کو سرکاری زبان بنانے کے لیے آسام لینگویج ایکٹ' میں ترمیم کی گئی۔1971 بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران مہاجر بڑی تعداد میں بھارت میں داخل ہوئے۔ 1978 میں منگلڈوی پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخابات کے دوران اس بات کے خلاف زبردست احتجاج شروع ہوا کہ بڑی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزینوں کا نام الیکٹرول رول میں شامل کیا گيا ہے۔
وہیں 26 اگست 1979 میں سیاسی و سماجی تنظیموں نے پارلیمانی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، دسمبر 1979 آسام میں صدر راج نافذ کیا گیا جو 3 برس تک رہا۔ 1980 کے مئی میں 'آل آسام مائنارٹی طلبا یونین' قائم کی گئی، جبکہ دو برس بعد یعنی 18 فروری 1983 کو آسام کے 14گاؤں میں صرف چھ گھنٹوں کے اندر تین ہزار سے زائد بنگالی مسلم برادری کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ 1983 میں ہی اسمبلی انتخابات کرائے گئے اور اسی برس کے اواخر میں غیر قانونی تارکین وطن ایکٹ کی منظوری، قانون کے تحت 24 مارچ 1971 کے بعد کے تمام پناہ گزينوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا
ملک کی یوم آزادی کے روز ریاست میں طویل احتجاج کے بعد 'معاہدہ آسام' طے پایا۔ اس پر مرکز ریاست اور دیگر آسامی گروپس نے دستخظ کیے۔ سنہ 1997 میں الیکشن کمیشن تقربیا سو دو لاکھ آسامی ووٹرزکے ناموں کے ساتھ حرف ڈی یعنی(مشکوک) کو شامل کرنے کا حکم دیا
سنہ 2003 میں شہریت ترمیمی قانون کو متعارف کیا گیا جبکہ 2005 میں سپریم کورٹ نے 'غیر قانونی مہاجرین ایکٹ' کو خارج کر دیا۔ 2009 کے جولائی مہینے میں آسام پبلک ورکس نامی این جی او نے سپریم کورٹ میں بغیر مناسب دستاویز والے تارکین وطن کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنےکی اپیل کی۔ اس کے ایک عرصے بعد یعنی جون 2010 میں پائیلٹ این آر سی پروجیکٹ کو متعارف کیا گیا ، جسے ' اے اےایم ایس یو' کےاحتجاج کے بعد روک دیا گیا
سنہ 2011 میں کابینہ کی سب کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ این آر سی سے متعلق نئےطریقوں پر کام کیا جاسکے، جولائی2012 آسام کی کابینہ نے کمیٹی کی رپورٹ کو منظور کیا، ایک برس بعد حکومت آسام نے این آرسی کے جدید،ماڈلٹیز، کی رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ میں داخل کی۔ 2013 کے سپریم کورٹ نے این آرسی کی تجدید اور گنتی کو تیز کرنے کا حکم دیا، جبکہ اکتوبر میں پرتیک ہجیلا کو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بنایا گیا، وہیں دسمبر میں مرکز نے این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کے لیے 'گزٹ نوٹیفکیشن' جاری کیا۔
سنہ 2014 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فارنرز ایکٹ 1964 کے تحت فارنرس ٹرائبیونلز قائم کیے جائیں۔ مارچ 2015 میں میراث کا ڈیٹا آن لائن کیا گیا۔

اگست 2015 میں این آر سی فہرست کی تجدید اور تصدیق کا کام انجام دینے کی درخواستیں طلب کی گئیں، 19 جولائی 2016 حکومت ہند نے شہریت ترمیمی بل کو متعارف کیا جس میں پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے آنے والی اقلیتوں کو شہریت دینے کا وعدہ یا گیا۔ 2017 میں این آر سی کا پہلا نیا مسودہ شائع کیا گیا جس میں صرف 1.9 کروڑ افراد کا نام شامل تھا، 3.29 کروڑ لوگوں نے درخواست دی تھی
مئی 2018 میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف بڑے پیمانہ پر احتجاجی مظاہرے اور اسی سال جولائی میں این آر سی کا قطعی ڈرافٹ شائع کیا گیا جس میں 2.89 کروڑ افراد کے نام شامل تھے اور 40 لاکھ افراد کا نام غائب تھا۔ 2019 کے پہلے مہینے میں شہریت ترمیمی بل لوک سبھا میں منظور کیا گیا، 21 جون 2019 اے پی ڈبلیو، تنظیم سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی اور این آر سی کے قطعی ڈرافٹ میں شامل ناموں کی ازسرنو تصدیق کی اپیل کی۔


جون 2019 کے مہینے میں ایڈیشنل ڈرافٹ اخراج فہرست شائع ہوئی جس میں 1،02،462 مزید افراد کے ناموں کو خارج کیا گیا، 19 جولائی 2019 میں مرکز اور ریاستی حکومت نے عرضی دائر کی گئی اور این ار سی کی 'سیمپل ریویری فکیشن' کی اپیل۔

ریاست میں12.7 فیصد اور سرحدی علاقوں میں محض7.7 فیصد ناموں کا اخراج عمل میں آیا، 22 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے عرضی کو خارج کیا، ریاستی این آر سی کوارڈینٹر کو ہدایت دی کہ وہ ایک ماہ کے اندر قطعی این آر سی کو شائع کرے۔
رواں ماہ اگست کی 13 تاریخ کو سپریم کورٹ نے مزید توسیع کی اپیل کو خارج کر دیا،جن ناموں کو خارج کر دیا اس کی قطعی فہرست کو آن لائن پلیٹ فارمز پر شائع کرنے کی ہدایت دی، جبکہ 19 اگست کے روز فارنیرز ٹرائبیونلز کے 221 ارکان کو منتخب کیا ہے۔

گزشتہ برس 30 جولائی کو این آر سی کا قطعی ڈرافٹ شائع کیا گیا جس میں 2.89 کروڑ افراد کے نام شامل تھے اور 40 لاکھ افراد کا نام غائب تھا۔

تفصیلات یہاں پڑھیں!

19 جولائی 1948میں مغربی پاکستان سے آنے والے افراد پر روک لگانے کا آرڈینینس منظور کیا گیا، 8 اپریل 1950 میں پنڈت نہرو اور لیاقت علی کے مابین معاہدہ ہوا۔ یکم مارچ 1950 میں پناہ گزینوں کو ریاست سے بے دخل کرنے کا ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے بعد سنہ 1951 میں آزاد بھارت کی پہلی مردم شماری ہوئی اور آسام کا این آر سی مکمل ہوا۔30 دسمبر 1955 میں شہریت قانون نافذ کیا گیا۔

این آر سی میں کب اور کیسے تبدیلیاں ہوئیں

سنہ 1957 میں پناہ گزينوں کی بے دخلی سے متعلق قانون کو منسوخ کیا گيا، 24 اکتوبر 1960 میں ریاستی اسمبلی میں آسامی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، 19 مئی 1961 آسام کی بارک ویلی سے بنگالی زبان کی تحریک کا آغاز ہوا۔ 1961 تا 1996 میں مشرقی پاکستانی شہریوں کی دراندازی کے انسداد قانون کے تحت ہزاروں مشرقی پاکستانی پناہ گزینوں کو آسام چھوڑنے پر مجبور کیا گيا۔

سنہ 1964 میں مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں بنگالی ہندوں کی آسام آمد پر فسادات پھوٹ پڑے۔ 23 ستمبر 1964 میں مرکز نے خارجی امور کے ایک ایکٹ کے تحت 'فارنرز ٹرائبیونل 1964' جاری کیا۔ 1965 میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ شروع ہوئی تو مشرقی پاکستان بڑی تعداد میں پناہ گزین داخل ہوئی، جبکہ 8 اگست 1967 کو 'آل آسام طلبا یونین' کا قیام عمل میں آيا۔ 1967 میں بارک وادی کے تین اضلاع میں بنگلہ کو سرکاری زبان بنانے کے لیے آسام لینگویج ایکٹ' میں ترمیم کی گئی۔1971 بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران مہاجر بڑی تعداد میں بھارت میں داخل ہوئے۔ 1978 میں منگلڈوی پارلیمانی حلقہ کے ضمنی انتخابات کے دوران اس بات کے خلاف زبردست احتجاج شروع ہوا کہ بڑی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزینوں کا نام الیکٹرول رول میں شامل کیا گيا ہے۔
وہیں 26 اگست 1979 میں سیاسی و سماجی تنظیموں نے پارلیمانی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، دسمبر 1979 آسام میں صدر راج نافذ کیا گیا جو 3 برس تک رہا۔ 1980 کے مئی میں 'آل آسام مائنارٹی طلبا یونین' قائم کی گئی، جبکہ دو برس بعد یعنی 18 فروری 1983 کو آسام کے 14گاؤں میں صرف چھ گھنٹوں کے اندر تین ہزار سے زائد بنگالی مسلم برادری کے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ 1983 میں ہی اسمبلی انتخابات کرائے گئے اور اسی برس کے اواخر میں غیر قانونی تارکین وطن ایکٹ کی منظوری، قانون کے تحت 24 مارچ 1971 کے بعد کے تمام پناہ گزينوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا
ملک کی یوم آزادی کے روز ریاست میں طویل احتجاج کے بعد 'معاہدہ آسام' طے پایا۔ اس پر مرکز ریاست اور دیگر آسامی گروپس نے دستخظ کیے۔ سنہ 1997 میں الیکشن کمیشن تقربیا سو دو لاکھ آسامی ووٹرزکے ناموں کے ساتھ حرف ڈی یعنی(مشکوک) کو شامل کرنے کا حکم دیا
سنہ 2003 میں شہریت ترمیمی قانون کو متعارف کیا گیا جبکہ 2005 میں سپریم کورٹ نے 'غیر قانونی مہاجرین ایکٹ' کو خارج کر دیا۔ 2009 کے جولائی مہینے میں آسام پبلک ورکس نامی این جی او نے سپریم کورٹ میں بغیر مناسب دستاویز والے تارکین وطن کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنےکی اپیل کی۔ اس کے ایک عرصے بعد یعنی جون 2010 میں پائیلٹ این آر سی پروجیکٹ کو متعارف کیا گیا ، جسے ' اے اےایم ایس یو' کےاحتجاج کے بعد روک دیا گیا
سنہ 2011 میں کابینہ کی سب کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ این آر سی سے متعلق نئےطریقوں پر کام کیا جاسکے، جولائی2012 آسام کی کابینہ نے کمیٹی کی رپورٹ کو منظور کیا، ایک برس بعد حکومت آسام نے این آرسی کے جدید،ماڈلٹیز، کی رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ میں داخل کی۔ 2013 کے سپریم کورٹ نے این آرسی کی تجدید اور گنتی کو تیز کرنے کا حکم دیا، جبکہ اکتوبر میں پرتیک ہجیلا کو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بنایا گیا، وہیں دسمبر میں مرکز نے این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کے لیے 'گزٹ نوٹیفکیشن' جاری کیا۔
سنہ 2014 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ فارنرز ایکٹ 1964 کے تحت فارنرس ٹرائبیونلز قائم کیے جائیں۔ مارچ 2015 میں میراث کا ڈیٹا آن لائن کیا گیا۔

اگست 2015 میں این آر سی فہرست کی تجدید اور تصدیق کا کام انجام دینے کی درخواستیں طلب کی گئیں، 19 جولائی 2016 حکومت ہند نے شہریت ترمیمی بل کو متعارف کیا جس میں پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے آنے والی اقلیتوں کو شہریت دینے کا وعدہ یا گیا۔ 2017 میں این آر سی کا پہلا نیا مسودہ شائع کیا گیا جس میں صرف 1.9 کروڑ افراد کا نام شامل تھا، 3.29 کروڑ لوگوں نے درخواست دی تھی
مئی 2018 میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف بڑے پیمانہ پر احتجاجی مظاہرے اور اسی سال جولائی میں این آر سی کا قطعی ڈرافٹ شائع کیا گیا جس میں 2.89 کروڑ افراد کے نام شامل تھے اور 40 لاکھ افراد کا نام غائب تھا۔ 2019 کے پہلے مہینے میں شہریت ترمیمی بل لوک سبھا میں منظور کیا گیا، 21 جون 2019 اے پی ڈبلیو، تنظیم سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی اور این آر سی کے قطعی ڈرافٹ میں شامل ناموں کی ازسرنو تصدیق کی اپیل کی۔


جون 2019 کے مہینے میں ایڈیشنل ڈرافٹ اخراج فہرست شائع ہوئی جس میں 1،02،462 مزید افراد کے ناموں کو خارج کیا گیا، 19 جولائی 2019 میں مرکز اور ریاستی حکومت نے عرضی دائر کی گئی اور این ار سی کی 'سیمپل ریویری فکیشن' کی اپیل۔

ریاست میں12.7 فیصد اور سرحدی علاقوں میں محض7.7 فیصد ناموں کا اخراج عمل میں آیا، 22 جولائی 2019 کو سپریم کورٹ نے عرضی کو خارج کیا، ریاستی این آر سی کوارڈینٹر کو ہدایت دی کہ وہ ایک ماہ کے اندر قطعی این آر سی کو شائع کرے۔
رواں ماہ اگست کی 13 تاریخ کو سپریم کورٹ نے مزید توسیع کی اپیل کو خارج کر دیا،جن ناموں کو خارج کر دیا اس کی قطعی فہرست کو آن لائن پلیٹ فارمز پر شائع کرنے کی ہدایت دی، جبکہ 19 اگست کے روز فارنیرز ٹرائبیونلز کے 221 ارکان کو منتخب کیا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 29, 2019, 12:23 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.