ایک 85 برس کے والد اپنے کنبے کے دیگر افراد کے ساتھ اپنے پیٹے اصغر علی کے گھر لوٹنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اصغر علی کو تین برس قبل آسام کے 'ڈٹینشن کیمپ' میں قید کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ برس فیصلہ سنایا تھا کہ آسام کے حراستی مراکز میں تین برس سے زیادہ عرصہ گذارنے والے غیر ملکیوں کو تصدیق شدہ پتہ، بایو میٹرک معلومات پیش کرنے اور ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔
اصغر، جو 1980 سے گوہاٹی میں بڑھئی کی حیثیت سے کام کرتا تھا، کو جولائی 2017 میں اسٹیٹ فارن ٹریبونل نے گولپارہ حراستی کیمپ بھیج دیا تھا۔
کولکاتا کے پارک سرکس علاقے میں مقیم اصغر کے والد محمد جارف، جو فالج میں مبتلا ہیں اور کنبہ کے دیگر افراد عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد بے چینی سے جولائی ماہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جولائی میں اصغر کے حراستی مرکز میں تین برس مکمل ہوں گے۔
اصغر کے چھوٹے بھائی ارشاد نے کہا: 'میرا خاندان کئی برسوں سے کولکتہ میں رہائش پذیر ہے۔ ہمارے پاس ووٹر شناختی کارڈ ہیں اور وہ شہریوں کی حیثیت سے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ میرے بڑے بھائی نے آسام میں ملازمت کی اور اچھے پیسے کمائے'۔
اہل خانہ کی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اصغر کی بہن راجیہ نے کہا: 'میرے والد کا نام ووٹر لسٹ میں سیخ مورال تھا۔ لوگ اس کے نام کی وجہ سے اسے طعنہ دیتے تھے۔سال 2018 میں والد نے حلف نامہ دے کر اپنے ووٹر شناختی کارڈ اور آدھار کارڈ میں اپنا نام تبدیل کرکے محمد جارف رکھ دیا۔ انہوں نے کہا حلف نامہ نے ہمارے لئے پریشانی پیدا کردی۔ انہوں نے کہا ہم نے تمام متعلقہ دستاویزات ٹریبونل کو ارسال کردئے لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سنی'۔
کنبے کے مطابق ہائی کورٹ میں کیس ہارنے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں رجوع کیا۔ انہوں نے کہا عدالت عظمی کی ہدایت سے ان کی امیدوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ آصغر کنبے کا واحد روٹی کمانے والا تھا اور اب جلد ہی وہ گھر واپس لوٹ آئے گا۔