ETV Bharat / state

چندرابابو کو آندھرا پردیش اسمبلی میں پلے کارڈ لے جانے کی اجازت نہیں

آندھراپردیش کے ہذب مخالف رہنما این چندرابابونائیڈو اور ان کی تلگودیشم پارٹی کے ارکان اسمبلی کو اے پی اسمبلی کے قریب سیکوریٹی اہلکاروں نے روک دیا۔

author img

By

Published : Dec 12, 2019, 1:49 PM IST

Chandrababu is not allowed to carry play cards in the assembly
چندرابابو کو اسمبلی میں پلے کارڈ لے جانے کی اجازت نہیں

امراوتی میں اسمبلی کے اجلاس کے چوتھے دن کی کارروائی میں شرکت کے لئے چندرابابو اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ پہنچے تھے۔

ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈس بھی تھے تاہم سیکوریٹی عہدیداروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور پلے کارڈس ساتھ لے جانے پر اعتراض کیا۔

اس موقع پر تلگودیشم کے ارکان اسمبلی نے کہا کہ وہ اسمبلی میں واقع اپنے دفتر کو یہ پلے کارڈس لے جارہے ہیں تاہم سیکوریٹی اہلکاروں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان کو پلے کارڈس کے ساتھ اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔

سیکوریٹی اہلکاروں کی جانب سے کئے گئے اعتراض اور اندر جانے کی اجازت نہ دیئے جانے پر چندرابابو اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے اسمبلی کے سامنے بیٹھ گئے۔

اس موقع پرچندرابابو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت کے موقف پر شدید اعتراض کیا۔

امراوتی میں اسمبلی کے اجلاس کے چوتھے دن کی کارروائی میں شرکت کے لئے چندرابابو اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ پہنچے تھے۔

ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈس بھی تھے تاہم سیکوریٹی عہدیداروں نے ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور پلے کارڈس ساتھ لے جانے پر اعتراض کیا۔

اس موقع پر تلگودیشم کے ارکان اسمبلی نے کہا کہ وہ اسمبلی میں واقع اپنے دفتر کو یہ پلے کارڈس لے جارہے ہیں تاہم سیکوریٹی اہلکاروں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان کو پلے کارڈس کے ساتھ اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔

سیکوریٹی اہلکاروں کی جانب سے کئے گئے اعتراض اور اندر جانے کی اجازت نہ دیئے جانے پر چندرابابو اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے اسمبلی کے سامنے بیٹھ گئے۔

اس موقع پرچندرابابو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت کے موقف پر شدید اعتراض کیا۔

Intro:ریاست بہار کے ضلع گیامیں واقع اقلیتی کالج مرزاغالب کالج میں اب طلباء اردوسمیت دیگر آٹھ سبجیکٹ میں پوسٹ گریجویٹ نہیں کرپائینگے ۔ کالج انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہوگئی ہے ۔ 2014 سے 2019 تک کل بارہ سبجیکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی Body:مگدھ کمشنری کے واحداقلیتی کالج مرزاغالب کالج سے اب طلباء اردو سمیت دیگر آٹھ سبجکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کا کورس نہیں کرپائیں گے ۔کیونکہ کالج انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہوگئی ہے ۔مرزاغالب کالج کو صرف چار سبجکٹ میں ایم اے کرانے کی منظوری حاصل ہے ۔2014 سے 2019 تک کل بارہ سبجکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی ۔اردو سمیت کل آٹھ سبجکٹ کی منظوری ختم ہونے کے بعد اب صرف کمسٹری ، بوٹنی ، زولوجی اور سائیکلوجی میں طلباء داخلہ لے سکتے ہیں ۔حالانکہ اس ضمن میں کالج منتظمہ کادعوی ہے کہ حکومت سے جلد ہی منظوری مل جائیگی ۔مگر یونیورسیٹی کی جانب سے جاری لیٹر کے بعد شہر میں مرزاغالب کالج منتظمہ کی عدم توجہی کی چرچا ہورہی ہے کہ اقلیتی ادارہ بتاکر آئین کی دفعہ 29 اور 30 کی دہائی دینے والے منتظمہ کے افراد اردو کو کیوں نہیں اہم سمجھتے ہیں ؟ اردو سے انکی بے رغبتی کیوں ہے ؟ 2014 میں اردو سے پوسٹ گریجویٹ کرانے کی منظوری مگدھ یونیورسیٹی سے ملنے کے بعد بھی پانچ سالوں تک خاموش کیوں بیٹھے رہے ؟ حکومت سے منظوری لینے کے لئے پہل کیوں نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو کیا صرف خانہ پُری کی گئی ؟ حقیقت یہ بھی ہے کہ سابق کمیٹیوں نے کنبہ پروری کو فروغ ضرور دیا مگر جس لسانی اقلیتی کردار کی وجہ سے وہ گورننگ باڈی کے عہدے پر فائز تھے یا ہیں اسی لسانی اقلیتی کردار کو نظرانداز کیا اور ختم ہوتے دیکھتے رہے ۔اپنے چہیتوں و رشتہ داروں کو کالج پر مسلط کرنے کے لئے گیا ۔پٹنہ ایک کردیا مگر اردو پوسٹ گریجویٹ کو بچانے کے لئے صرف فائل تک کی پہل کی۔ واضح ہوکہ مگدھ یونیورسیٹی سے ملحق اقلیتی ادارہ مرزاغالب کالج میں اردو ، ہندی ، انگلش ، ہسٹری ، پولٹیکل سائنس اور میتھ سمیت کل آٹھ سبجکٹ کے لئے 2014 سے کل تین سیشن کے لئے منظوری ملی تھی ۔جبکہ چار سبجکٹ کمسٹری ، بوٹنی ، زولوجی اور سائیکلوجی میں لا لو یادو کے دوراقتدار میں حکومتی سطح سے منظوری حاصل ہوئی تھی ۔ مگدھ یونیورسٹی نے جن آٹھ سبجکٹ میں منظوری دی تھی اب اس پر روک لگ گئی ہے کیونکہ یونیورسیٹی نے منظوری دینے کے بعد حکومت سے ریگولر کرانے کی بھی ہدایت کالج کو دی تھی لیکن نہ تو سابق منتظمہ اور نہ ہی موجودہ منتظمہ نے اس پرتوجہ دیا ۔ کالج کے منتظمہ صرف آپسی انتشار اور گورننگ باڈی کے رکن رہنے کے لئے جوڑ توڑ میں تو لگے رہے مگر اس معاملے سے بے خبر رہے ۔ موجودہ سکریٹری اور کالج کے پروفیسر انچارج اپنا پلہ یہ کہتے ہوئے چھاڑ لیتے ہیں کہ ان سے پہلے کی کمیٹی کا معاملہ ہے ۔اب انکی جانکاری میں معاملہ آیا ہے تو منظوری حاصل کرنے کے لئے کاغذی کاروائی جاری ہے اور امید ہے کے مسئلے کاحل نکل جائیگا ۔لیکن اس دعوے میں کتنی حقیقت یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ
ذرائع بتاتے ہیں کہ مرزا غالب کالج میں ان دنوں پھر سے آپسی رسہ کشی عروج پر ہے۔اب اس صورتحال میں کتنا کام ہوگا یہ منتظمہ ہی جانتاہے ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سابق کمیٹی نے حکومت سے منظوری لینے کے لئے پہل نہیں کیاہے ۔کمیٹی نے منظوری کے لئے محکمہ ایجوکیشن تک گئے
Conclusion:کیاکہتے ہیں پروفیسر انچارج

مرزاغالب کالج کے پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری نے پوسٹ گریجویٹ کے آٹھ سبجکٹ کی منظوری ختم ہونے کے معاملے پر کہاکہ یہ معاملہ انکے وقت کانہیں ہے ۔جب نئے سیشن 2019 تا2020 کے لئے داخلہ لینے سے یونیورسیٹی نے روکا اور اسکے متعلق جانکاری دی تو انہوں نے وائس چانسلر سے ملکر مسئلے کے حل کے متعلق بات کی ، کالج کی گزارش پر وائس چانسلر نے انکوائری کمیٹی بناکر بھیجا جو کمیٹی کالج آکر جانچ کرکے چلی گئی ہے ۔ اس پرتوجہ دیکر کوشش کی جاتی تو آج حکومت سے منظوری حاصل رہتی حالانکہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اردو سمیت سبھی سبجکٹ میں پی جی کی منظوری حاصل کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے افسران سے لیکر وزیراعلی تک ملکر منظوری بحال کرنے کی گزارش کی جائیگی ۔

ایک دوسرے پر ٹال مٹول سے قوم کانقصان

موجودہ کمیٹی کے سکریٹری کہتے ہیں کہ معاملہ انکے وقت سے قبل کا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے موجودہ کمیٹی اور سابق کمیٹی میں صرف دو تین کوچھوڑ کر باقی سبھی برسوں سے ہیں ، موجودہ کمیٹی میں موجود اراکین میں صرف عہدے بدلے ہیں ۔ موجودہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی کو گورننگ باڈی میں شامل ہوئے دوسال ہوئے ہیں ۔فروری 2018 میں گورننگ باڈی کے رکن کے لئے ہوئے انتخاب کے بعد گورننگ باڈی کے سکریٹری قیصرشرف الدین بنے اور شمسی پہلی مرتبہ نائب صدر بنے ۔24 مارچ 2019 کو کمیٹی نے تختہ پلٹتے ہوئے قیصر شرف الدین کوسکریٹری کوعہدے سے ہٹا کر شبیع شمسی کو سکریٹری بنایا ۔برسوں سے مرزاغالب کالج گورننگ باڈی میں سابق صدر ایڈوکیٹ مسعود منظر ، موجودہ صدر سلیمان خان آزاد ، انعام الحسن ، سابق سکریٹری قیصر شرف الدین وغیرہ ہیں اور موجودہ کمیٹی میں بھی یہ سبھی موجود ہیں ، ایسے میں یہ کہنا درست کیسے ہوسکتا ہے کہ سابق کمیٹی کی تساہلی سے معاملہ حل نہیں ہوا ۔ جو کل تھے وہ آج بھی ہیں صرف عہدے پر بیٹھے شخص کی جگہ تبدیل ہوئی ہے

بائٹ ۔پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری
رپورٹ سرتاج احمد ضلع گیا بہار
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.