اننت ناگ: ضلع اننت ناگ کے تاریخی قصبہ بجبہاڑہ میں حضرت بابا نصیب الدین غازیؒ کا 396ویں عرس بڑے عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ عرس میں وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند شامل ہوئے۔ اگرچہ بزرگان دین اولیاء کاملین کی سرزمین وادی میں ہر برس سینکڑوں عرس پاک اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، تاہم حضرت بابا نصیب الدین غازی Hazrat Baba Naseeb Ud Din Ghazi کا عرس ایک الگ انداز میں منایا جاتا ہے، جو نہ صرف اظہار عقیدت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہاں کی تہذیب و ثقافت سے بھی اسے جوڑا جاتا ہے۔ دراصل بابا نصیب الدین غازی کے عرس کے دوران ڈھول بجا کر رقص کیا جاتا ہے، جسے مقامی طور ' دمبلی' کہا جاتا ہے۔ Urs of Hazrat Baba Naseeb Ud Din Ghazi
پیشہ ور ڈھول بجانے اور رقص کرنے والی مختلف ٹولیاں مختلف رنگین لباسوں میں ملبوس ہوکر ڈھول بجاتے ہوئے بابا کی درگاہ کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں اور درگاہ کے صحن میں اکٹھا ہو کر بڑی دمبالی کا اہتمام کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ دمبلی میں مقامی لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ دمبالی کا اہتمام ہر برس 13 اور 14 جون کو کیا جاتا ہے، اور 14 جون کی دوپہر کو یہ دعائیہ مجلس کے بعد اختتام ہو جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً 750 برس قبل جب بابانصیب الدین غازی یہاں تشریف لائے تو لوگوں کو جمع کرنے کے لیے انہوں نے ڈھول کا سہارا لیا، تاکہ دین کی بات ان تک پہنچائی جائے۔ ان کی وفات کے بعد عقیدت کے طور پر مرشدین نے ڈھول بجانے کی روایت کو برقرار رکھا، یہی وجہ ہے کہ یہ روایت آج بھی زندہ ہے، اور بابا کے یوم وصال کے موقع پر ہر برس اس طرح کے عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دفعہ 370 کی منسوخی اور کووڈ19 لاک ڈاون کی وجہ سے دمبالی تین برسوں تک معطل رہی۔ تاہم اس دوران مریدین اور عقیدت مند دمبالی کیے بغیر بابا کی درگاہ پر حاضری دیتے تھے۔
عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ عرس 15 روز تک جاری رہتا ہے۔ جس دوران بلا مذہب و ملت کشمیری پنڈت اور سکھ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے، تاہم نا مساعد حالات کے سبب یہ عرس صرف ایک دن تک محدود رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ بابا نصیب الدین غازی کا نام یہاں کے بلند پایہ اولیاء کرام اور بزرگان دین میں شمار کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے دین کی سر بلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔
بابا نصیب الدین غازی کا مقبرہ جنوبی ضلع اننت ناگ کے قصبہ بجبہاڈہ کے بابا محلہ میں واقع ہے۔ جہاں پر روزانہ وادی کے اطراف واکناف سے عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بابا نصیب الدین غازی کے نام سے ہی محلے کا نام بابا محلہ منصوب کیا گیا ہے۔ ان کے والد حضرت شیخ حسین راضی پاکستان کے راولپنڈی سے یہاں تشریف لائے تھے، جنہوں نے شیخ حمزہ مخدومی، اور علامہ بابا داؤد خاکیؒ سے بیت کی اور بعد میں اپنے فرزندہ حضرت بابا نصیب الدین غازی کو تربیت کے لیے انہیں سونپ دیا۔
بابا نصیب الدین غازی حضرت سلطان العارفین کے خاص مرید رہے ہیں اور وہ ایک بہت بڑے عالم دین بھی رہے ہیں، جس کی وجہ سے بابا کو امام اعظم ثانی کا لقب حاصل ہوا ہے۔ بابا کے بارہ سو خلفاء رہے ہیں، جن میں تقریباً 30 خُلفاء ان کے آستانہ عالیہ میں ہی مدفون ہیں۔ جبکہ دیگر کئی خلفاء کے مقبرے وادی کے مختلف اضلاع میں موجود ہیں، ان بزرگان دین کی زیارت گاہوں پر حاضری دے کر لوگ آج بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: