ETV Bharat / state

کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟

لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جگہ جگہ پولٹری فارم قائم کیے گئے ہیں، پولٹری فارم کا وجود عمل میں لانے سے بھی یہ روایت ختم ہوئی ہے، کیونکہ بوئیلر مرغے (فارم والے مرغے) اب جگہ جگہ پر مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیسی مرغوں کی قیمت فارم مرغ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔

کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟
کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟
author img

By

Published : Feb 26, 2021, 8:53 PM IST

Updated : Feb 26, 2021, 10:08 PM IST


ایک زمانہ تھا کہ کشمیر وادی کے بلدیاتی و شہری علاقوں میں یہ روایت تھی کہ ہر گھر میں مرغے پالے جاتے تھے، جو کہ بہت ہی کار آمد ثابت ہوتے تھے، جب بھی یہاں کسی گھر میں کوئی مہمان یا کوئی خاص تقریب ہوتی تھی، تو مہمان نوازی کے لئے ان مرغوں کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔

کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟

ان مرغوں کو پالنے میں گھر کے بزرگوں کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ یہ مرغے قدیم زمانے میں لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے میں ایک اچھا رول نبھاتے تھے، جب بھی گھر میں کسی کو پیسوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی، تو ان مرغوں کو ہی بیچ کر اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے اور ان کے انڈے اور ان کا گوشت کافی مفید سمجھا جاتا تھا۔



لیکن اب وقت نے کروٹ بدلی، دور جدید میں جہاں انسان نے کافی ترقی کی ہے وہیں کشمیری مرغے اب گنے چنے گھروں میں دیکھے جارہے ہیں، دیسی مرغ کی جگہ اب بوئیلر مرغوں نے لی ہے کیونکہ بوئیلر مرغے بہت ہی قلیل مدت میں کھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، ہوٹلوں، گھروں یا کوئی بھی تقریب ہو وہاں پر بوئیلر مرغ کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے، جو کہ کم دام میں آسانی سے بازاروں میں مل جاتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں نے وادی کی اس روایت کو اس لیے ترک کیا کیونکہ لوگوں نے اب جدید طرح کے مکانات تعمیر کئے ہیں۔

لوگ اب اپنے مکان کے باہر پنجرہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ مکانوں کو اونچی اونچی دیواروں سے قید کر کے رکھا گیا ہے۔ لوگ اب مکان کے سامنے پارک یا کچن گارڈن بنانے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کشمیر کی اس پرانی روایت کو بھول چکے ہیں۔

رئیس جانثار نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جگہ جگہ پولٹری فارم قائم کیے گئے ہیں، پولٹری فارم کا وجود عمل میں لانے سے بھی یہ روایت ختم ہوئی ہے، کیونکہ بوئیلر مرغے (فارم والے مرغے) اب جگہ جگہ پر مناسب دام پر دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیسی مرغوں کی قیمت فارم مرغ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فارم والے مرغ قلیل مدت میں کھانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جس کے برعکس کشمیری مرغوں کو تیار ہونے میں کئی مہینے لگتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سماجی دوڑ دھوپ کی وجہ سے اب لوگوں کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس روایت کو جاری رکھیں۔

اس سلسلے میں جب ای ٹی وی نمائدہ نے محکمہ پشو پالن کے چیف انیمل ہسبنڈری آفیسر ڈاکٹر سعید محمد عباس سے بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ محکمہ پشو پالن کی جانب سے کشمیر کی اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے بیک یارڈ پولٹری اسکیم عمل میں لائی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ابھی تک بیکیاڈ پولٹری اسکیم کے تحت تقریبا تین لاکھ پچاس ہزار چوزے پالے گئے ہیں۔

جموں و کشمیر کو بنائیں گے سرمائی کھیلوں کا مرکز: وزیراعظم مودی

ڈاکٹر سعید نے کہا کہ ابھی تک اس اسکیم سے لگ بگ پینتیس ہزار گھر مستفید ہوئے ہیں جن کو مفت میں یہ چوزے دئے گئے ہیں۔

اُنہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ بیک یارڈ اسکیم سے ہی یہ روایت زندہ رہ سکتی ہے۔ جس کے لئے مذکورہ محکمہ انتھک کوشیشوں میں جٹا ہوا ہے، تاکہ وادی کی اس صدیوں پرانی روایت کو بچایا جاسکے۔


ایک زمانہ تھا کہ کشمیر وادی کے بلدیاتی و شہری علاقوں میں یہ روایت تھی کہ ہر گھر میں مرغے پالے جاتے تھے، جو کہ بہت ہی کار آمد ثابت ہوتے تھے، جب بھی یہاں کسی گھر میں کوئی مہمان یا کوئی خاص تقریب ہوتی تھی، تو مہمان نوازی کے لئے ان مرغوں کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔

کشمیر میں دیسی مرغ پالنے کی روایت کیوں ختم ہو رہی ہے؟

ان مرغوں کو پالنے میں گھر کے بزرگوں کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ یہ مرغے قدیم زمانے میں لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے میں ایک اچھا رول نبھاتے تھے، جب بھی گھر میں کسی کو پیسوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی، تو ان مرغوں کو ہی بیچ کر اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے اور ان کے انڈے اور ان کا گوشت کافی مفید سمجھا جاتا تھا۔



لیکن اب وقت نے کروٹ بدلی، دور جدید میں جہاں انسان نے کافی ترقی کی ہے وہیں کشمیری مرغے اب گنے چنے گھروں میں دیکھے جارہے ہیں، دیسی مرغ کی جگہ اب بوئیلر مرغوں نے لی ہے کیونکہ بوئیلر مرغے بہت ہی قلیل مدت میں کھانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، ہوٹلوں، گھروں یا کوئی بھی تقریب ہو وہاں پر بوئیلر مرغ کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے، جو کہ کم دام میں آسانی سے بازاروں میں مل جاتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر لوگوں نے وادی کی اس روایت کو اس لیے ترک کیا کیونکہ لوگوں نے اب جدید طرح کے مکانات تعمیر کئے ہیں۔

لوگ اب اپنے مکان کے باہر پنجرہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں زمانے کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ مکانوں کو اونچی اونچی دیواروں سے قید کر کے رکھا گیا ہے۔ لوگ اب مکان کے سامنے پارک یا کچن گارڈن بنانے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کشمیر کی اس پرانی روایت کو بھول چکے ہیں۔

رئیس جانثار نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جگہ جگہ پولٹری فارم قائم کیے گئے ہیں، پولٹری فارم کا وجود عمل میں لانے سے بھی یہ روایت ختم ہوئی ہے، کیونکہ بوئیلر مرغے (فارم والے مرغے) اب جگہ جگہ پر مناسب دام پر دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیسی مرغوں کی قیمت فارم مرغ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فارم والے مرغ قلیل مدت میں کھانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جس کے برعکس کشمیری مرغوں کو تیار ہونے میں کئی مہینے لگتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سماجی دوڑ دھوپ کی وجہ سے اب لوگوں کے پاس وقت نہیں کہ وہ اس روایت کو جاری رکھیں۔

اس سلسلے میں جب ای ٹی وی نمائدہ نے محکمہ پشو پالن کے چیف انیمل ہسبنڈری آفیسر ڈاکٹر سعید محمد عباس سے بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ محکمہ پشو پالن کی جانب سے کشمیر کی اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے بیک یارڈ پولٹری اسکیم عمل میں لائی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ابھی تک بیکیاڈ پولٹری اسکیم کے تحت تقریبا تین لاکھ پچاس ہزار چوزے پالے گئے ہیں۔

جموں و کشمیر کو بنائیں گے سرمائی کھیلوں کا مرکز: وزیراعظم مودی

ڈاکٹر سعید نے کہا کہ ابھی تک اس اسکیم سے لگ بگ پینتیس ہزار گھر مستفید ہوئے ہیں جن کو مفت میں یہ چوزے دئے گئے ہیں۔

اُنہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ بیک یارڈ اسکیم سے ہی یہ روایت زندہ رہ سکتی ہے۔ جس کے لئے مذکورہ محکمہ انتھک کوشیشوں میں جٹا ہوا ہے، تاکہ وادی کی اس صدیوں پرانی روایت کو بچایا جاسکے۔

Last Updated : Feb 26, 2021, 10:08 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.