عالمی وبا کوویڈ 19 کو ہرانے میں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت جدوجہد کر رہا ہے وہیں دو سری جانب کشمیر میں سینکڑوں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ وادی میں اس وبا کو ڈھائی مہینے سے زیادہ عرصہ گزرہ گیا ہے۔ تاہم یہاں کچھ افراد ایسے ہیں جن کے پاس کھانے پینے تک کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ہے۔ انہیں مفلوک الحال افراد میں ڈارپورہ اہلن کوکرناگ کی ایک بیوہ نور جہاں بھی ہے۔
اس بیوہ خاتون نے لوگوں کی مدد سے اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کروایا ہے جو مختلف جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اس غریب خاندان کا کمانے کا کوئی بھی ذریعہ نہیں ہے۔ نور جہاں کا کہنا ہے کہ انہیں مختلف مصائب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
کوکرناگ کے اس پسماندہ علاقے میں تقریباً 80 فیصد لوگ غریبی کی سطح کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ڈارپورہ نامی یہ گاؤں حکام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اب جو بچے تعلیم کی طرف راغب ہو چکے تھے ہڑتال اور اس لاک ڈاون کی وجہ سے ان غریب بچوں کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن ان آن لائن کلاسز سے صرف وہ طلبہ مستفید ہو رہے ہیں جن کے پاس اسمارٹ موبائل فون ہے۔ اب جن گھروں میں ایک ہی وقت چولہا جلتا ہو ان گھروں میں اسمارٹ فون کہاں سے آسکتا ہے۔ علاقے میں ایسے بہت سے گھر ہیں جن میں اسمارٹ فون نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے، حالانکہ ان بچوں میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ زندگی میں کچھ بننے کی بھی چاہت ہے لیکن ایسے غریب بچے کل کیا کسی قوم کے معمار بنیں گے جن کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کھانہ تک مہیا نہیں ہے۔
ایسے میں مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ان مفلوک الحال افراد کی مدد کرے تاکہ مستقبل میں ایسے غریبی کی حالت میں رہ رہے بچے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کو بلندی کے مقام تک پہنچا سکیں۔