وادی میں تازہ پھلوں کے تیار ہونے کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ اس موسم میں سیب اور ناشپاتی کے ساتھ ساتھ خشک میوے یعنی اخروٹ بھی تیار ہو چکے ہیں، اگر چہ سیب اتارنے کا سیزن لمبے وقت تک چلتا ہے۔ تاہم اخروٹ اتارنے کا سیزن محدود ہوتا ہے۔
چھلکے میں دراڑیں پڑنا اخروٹ تیار ہونے کے نشانی تصور کی جاتی ہے جس کے فوراً بعد اسے اتارنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
سیب و دیگر تازہ اور خشک پھلوں کے مقابلے میں اخروٹ اتارنے کا کام کافی جوکھم بھرا ہوتا ہے۔
دیگر پھل دار درختوں کے مقابلے میں اخروٹ کا درخت کافی اونچا، شاخیں لمبی اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اخروٹ کے درخت پر چڑھنا اور انہیں اتارنے کا کام کافی مشکل بھرا ہوتا ہے۔
سیب، ناشپاتی، بادام و دیگر درختوں سے پھل اتارنے کا کام کوئی بھی شخص بہ آسانی انجام دے سکتا ہے تاہم اخروٹ کے درخت سے اخروٹ اتارنا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
ایک مکمل مہارت رکھنے والا شخص ہی اخروٹ کے درخت سے اخروٹ اتار سکتا ہے۔
سیب، ناشپاتی اتارنے کے دوران سیڑھی یا ٹول کا استعمال کرکے ہاتھوں سے بآسانی اتارا جاتا ہے تاہم اخروٹ اتارنے کا عمل اس کے بالکل مختلف ہے۔
اخروٹ اتارنے والا شخص تقریبا 30سے 100فٹ کی اونچائی پر درخت کے شاخ پر بنا کسی سہارے کے کھڑا ہوکر دونوں ہاتھوں سے ڈنڈا پکڑ کر اخروٹ اتارتے ہیں جو کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
اخروٹ اتارنے کے سیزن کے دوران اکثر و بیشتر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اس جوکھم بھرے کام میں اب تک سینکڑوں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں، جبکہ متعدد افراد زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو چکے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے اخروٹ اتارنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس کام کے بدلے اچھی خاصی مزدوری فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ روزی روٹی کمانے کے لیے اپنی جان پر کھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
سرکار کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ایک قانون مرتب کرے تاکہ ایک معقول نظام کے تحت اخروٹ اتارنے والے شخص کی جان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔