دراصل 25 مارچ سنہ 2000 میں فوج نے ضلع اننت ناگ کے پتھری بل علاقہ میں پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ جنہیں چھٹی سنگھ پورہ قتل عام میں ملوث بتایا گیا تھا، تاہم بعد میں وہ عام شہری ثابت ہوئے۔
واضح رہے کہ 20 مارچ سنہ 2000 میں نامعلوم وردی پوش مسلح افراد نے چھٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کا قتل کیا تھا۔ سانحہ کے پانچ روز بعد یعنی 25 مارچ کو فوج نے پتھری بل میں پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا۔
فوج کا دعوی تھا کہ مذکورہ عسکریت پسند سکھوں کے قتل عام میں ملوث تھے تاہم مقامی لوگوں نے فوج کے دعوے کو مسترد کیا اور یہ دعوی کیا کہ مارے گئے افراد عسکریت پسند نہیں بلکہ عام شہری ہیں۔ جنہیں فوج راستہ دکھانے کی غرض سے اپنے گھروں سے اٹھا کر لے گئی تھی۔
پتھری بل واقعہ کی جانچ کے مطالبہ کو لے کر مقامی لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس دوران سکیورٹی فورسز نے مظارہرین پر فائرنگ کرکے مزید 8 افراد کو ہلاک کردیا۔ ایسے میں کل ملا کر 13 افراد پتھری بل سانحہ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
عوامی دباؤ کے بعد کیس کو سی بی آئی کے سپرد کیا گیا۔ جانچ کے بعد سی بی آئی نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی جس میں جانچ ایجنسیز نے واقعہ کو سفاکانہ قتل سے تعبیر کیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کو ہدایت دی کہ وہ اس مبینہ قتل میں ملوث فوجی افسران و اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل کرے۔ تاہم کورٹ مارشل کے دوران ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کی کمی کی بنیاد پر فوج نے ملزمین کو بری کر دیا اور کیس کو بند کر دیا گیا۔
کیس کے بند ہونے کے باوجود بھی متاثرین نے ہمت نہیں ہاری اور وہ لگاتار انصاف کی دستک دیتے رہے۔ متاثرین نے کیس کو دوبارہ کھولنے کے لیے 2016 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں دوبارہ عرضی دائر کی لیکن عرضی کو مسترد کردیا گیا۔
متاثرین آج بھی حکومت ہند و حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے ملکی و غیر ملکی تنظیموں سے کیس کو دوبارہ کھولنے کی فریاد کر رہے ہیں اور ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیل کر رہے ہیں۔لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ تب تک پرامن طریقہ سے اس انسانیت سوز سانحے کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا۔