اننت ناگ (جموں کشمیر) : وادی کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد 90 کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی شروع ہوئی تھی، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں عسکریت پسندی کی دستک کے ساتھ ہی چند برسوں کے اندر64,951 پنڈت کنبوں نے ہجرت کر کے جموں سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں سکونت اختیار کی۔ تاہم اُس وقت بھی کشمیری پنڈتوں کی ایک قلیل تعداد ایسی تھی جنہوں نے وادی ترک نہیں کی، جن کی تعداد تقریبا 5 ہزار بتائی جا رہی ہے جبکہ (پنڈتوں کی) اکثریت ملک کے مختلف شہروں میں آج بھی رہائش پذیر ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں بھی کشمیری پنڈتوں کی خاصی تعداد رہائش پذیر ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے وادی ترک نہ کرنے والے چند معمر کشمیری پنڈتوں نے کہا کہ انہوں نے مشکل حالات میں تذبذب میں زندگی گزاری، لیکن مسلم پڑوسیوں کے بھروسے اور حوصلے کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کے لمحات اپنے آبائی گھروں میں گزارے۔
ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والی 85 سالہ شامال رانا نقمی نامی ایک معمر پنڈت خاتون نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انہیں آج بھی یاد ہے کہ ’’90کی دہائی کے اوائل میں چاروں طرف خوف و دہشت کا ماحول تھا، اعزہ و اقارب اور رشتہ دار وادی چھوڑ کر چلے گئے لیکن ہم اپنے آبائی وطن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔‘‘ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے معمر خاتون نے 90کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ (اُس وقت) لگ رہا تھا کہ شاید مستقبل میں ایسے حالات نہیں رہیں گے، وہ تذبذب میں تھی اور یہ فیصلہ کرنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ وادی چھوڑ دے گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ مسلمانوں نے اس وقت ان کو حوصلہ دیا، ان کی ہمت بڑھائی جس کے بعد انہوں نے گھر نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ زندگی کے طویل اور مشکل لمحات اپنے ہی آبائی گاؤں آکورہ اننت ناگ میں گزارے۔
شامال رانہ نے کہا کہ مشکل حالات کے دوران مسلم ہمسایوں نے ان کی ہر ممکن مدد اور حفاظت کی۔ مسلم ہمسایہ خیرو عافیت پوچھنے کے لئے ہر روز ان کے گھر آتے تھے جس روز علاقہ میں حالات خراب ہوتے تھے اس روز ہمسایہ ان کے گھر آکر ان کو حوصلہ دیتے تھے۔ اسی طرح وقت گزر گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایوں کی بدولت آج وہ صحیح سلامت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بُرا وقت تھا اور آخر کار بُرے وقت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ رانا نے مزید کہا کہ ’’آج کشمیری پنڈتوں کے تہواروں پر پرانی جیسی رونقیں لوٹتی ہوئی نظر آ رہی ہیں، بُن ماس، رکشا بندھن جیسے تہواروں پر مسلمانوں کی شرکت دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہو رہی ہیں اور اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ یہاں آج بھی مذہبی ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارہ قائم اور دائم ہے۔
مزید پڑھیں: Muslims Perform Kashmiri Pandit’s Last Rites: کشمیری پنڈت کی آخری رسومات مسلم برادری نے انجام دی
اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے 80 سالہ کشمیری پنڈت برج ناتھ تکو نے کہا کہ انہوں نے خراب حالات میں اچھے حالات ہونے کی امید کے ساتھ یہاں زندگی گزاری، تاہم اپنے آبائی گھر میں زندگی گزارنا مسلم ہمسایوں کے تعاون کے بغیر نا ممکن تھا۔ انہوں نے کہا: ’’مسلمانوں کے بھروسے اور حوصلے سے ہی کشمیری پنڈتوں نے وادی نہیں چھوڑی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ میڈیکل شعبہ سے وابستہ تھے اور نا مساعد حالات کے دوران انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ خدمات جاری رکھیں، وہ لوگوں کی مرہم پٹی اور فسٹ ایڈ کرنے، ان کے گھر جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے علاقہ میں مقبول تھے اور لوگ ان کی کافی عزت کرتے تھے۔ برج ناتھ نے کہا کہ طویل عرصہ بعد تہواروں پر پر لوگوں کا ہجوم اور ہندو، مسلم، سکھ اتحاد دیکھ کر وہ کافی خوش ہیں اور وہ یہ امید کرتے ہیں کہ یہاں ماضی جیسے حالات لوٹ آئیں۔ انہوں نے وادی سے باہر مقیم مائیگرنٹ پنڈتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ واپس لوٹ آئیں اور یہاں اپنے آبائی علاقوں میں پھر سے مل جھل کر زندگی گزاریں۔‘‘