ETV Bharat / state

دفعہ 370 کی منسوخی: ابھی بھی کئی نوجوان مقید

گزشتہ برس پانچ اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں کئی نوجوانوں، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو حراست میں لیا جن میں سے ابھی بھی کئی افراد ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

دفعہ 370 کی منسوخی: ابھی بھی کئی نوجوان مقید
دفعہ 370 کی منسوخی: ابھی بھی کئی نوجوان مقید
author img

By

Published : Aug 5, 2020, 8:22 AM IST

پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35 اے کو کالعدم کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں تشدد پھوٹنے کے اندیشے کو لے کر مرکزی حکومت نے پہلے ہی سخت اقدامات کیے تھے جس کے تحت سکیورٹی فورسز کی جانب سے وادی کے مختلف اضلاع سے نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ ان میں سے کئی نوجوانوں کو بعد میں رہا کیا گیا لیکن ایسے بھی نوجوان ہیں جو ابھی بھی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

جموں و کشمیر انتظامیہ کے مطابق اُن افراد کو احتیاطی طور پر حراست میں لیا گیا جن پر شک و شبہ تھا کہ وہ دوبارہ ایسی حرکتوں میں ملوث ہو سکتے ہیں جس سے وادی کا امن و امان درہم برہم ہو سکتا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی: ابھی بھی کئی نوجوان مقید

ای ٹی وی بھارت نے کچھ ایسے کنبوں سے بات کی جن کے بچوں کو ملک کی مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔

گرفتار شدہ نوجوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ 'مذکورہ نوجوان ماضی میں پتھر بازی کے واقعات میں ملوث تھے، اس لیے انہیں گرفتار کیا گیا۔'

اُن کا کہنا تھا کہ 'آخر کب تک ہمارے بچوں کو کشمیری ہونے کا خمیازہ بُھگتنا پڑے گا۔'

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟

کچھ نوجوان مفلوک الحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس گزارا نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکیں۔ اُن میں سے کئی نوجوانوں کے والدین سخت علیل ہیں اور وہ جیل میں نظر بند اپنے لخت جگروں کی رہائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ کی گئی ایک خصوصی گفتگو کے دوران سماجی کارکن خرم پرویز کا کہنا تھا کہ 'مرکزی حکومت اس وقت جواب دہی سے اپنا پلہ جھاڑ رہی ہے۔ حکومت ایسے سخت اقدامات اٹھانے کے لیے امن و قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتی ہے لیکن انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ان سے بار بار انسانی حقوق کی پامالیوں پر لگاتار سوال پوچھ رہے ہیں۔'

اقوام متحدہ کی جانب سے بھارتی حکومت کو خط کے ذریعے جموں و کشمیر میں گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد ہو رہی 'انسانی حقوق کی پامالیوں' کی تحقیقات کرائے جانے پر وادی کے نامور سماجی کارکن خرم پرویز کا کہنا ہے کہ انہیں اُمید ہے کہ بھارتی حکومت کو ایک دن کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ کشمیر میں مبینہ طور پر ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو لے کر اقوام متحدہ نے مرکزی حکومت کو ایک خط ارسال کیا تھا اور ان سے جواب طلب کیا تھا لیکن ہر بار کی طرح مرکزی سرکار نے کشمیر کے مسئلے کو اندرونی مسئلہ بتاتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے لوگوں نے اپنی روداد سنائی اور روتے بلکتے اُنہوں نے اپنی دادرسی بیان کی۔ اُن کے مطابق اُن کے بچے جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

پانچ اگست 2019 میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے بھاری اقتدار کا استعمال کر کے ریاست کو دفعہ 370 کے تحت ملے خصوصی اختیارات کو منسوخ اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کا فیصلہ لیا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے لوگ خاموش تو تھے لیکن دفعہ 370 ہٹائے جانے کا غم اُنہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا جس کا افسوس آج بھی کشمیری عوام کے چہروں پر صاف نظر آ رہا ہے۔

اس دوران کشمیر میں تمام طرح کا نظام ٹھپ کیا گیا۔ کشمیری لوگوں کا جیسے باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

جموں وکشمیر میں قدغنیں اور پابندیاں عائد کی گئیں اور یہاں کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی نظر بند کیا گیا اور مواصلاتی نِظام کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

ایک سال کے دوران کشمیر کے سیاسی منظرنامہ میں کیا بدلا؟

دفعہ 370 کی منسوخی سے پہلے وادی کے طول و عرض میں سیاست سے لے کر سماجی اور باقی دیگر تنظیوں کی طرف سے اِس موضوع کو لے کر ہر کوئی سراپا تھا اور یک زبان ہو کر سبھی جماعتیں ریاست کی اس حاصل خصوصی پوزیشن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سرگرمِ عمل تھے کیونکہ دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی کو منظور نہیں تھی اور اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے وادی کے مختلف اضلاع سے سیاسی، سماجی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے احتجاجی ریلیاں نکالی گیں کیونکہ لوگوں کو اندیشہ ہو چکا تھا کہ مرکزی حکومت دفعہ 370 اور 35A کو ہٹانے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے۔

اس دفعہ کے ساتھ لوگوں کے جذبات جڑے تھے، اس دفعہ کی شِق کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو قانون کے مطابق ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ بھارت کے آئین کا کشمیر سے متعلق یہ قانون ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں منظور کیا تھا۔ 1953 میں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیر آئینی معزولی کے بعد وزیر اعظم ہند جواہر لعل نہرو کی سِفارش پر صدارتی حکمنامہ کے زریعہ آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل تھی۔

واضح رہے کہ کشمیر میں گرفتاریاں دفعہ 370 اور 35اے کی منسوخی سے پہلے بھی عمل میں لائی جا رہی تھیں مگر بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت میں محبوبہ مفتی نے اعلان کیا تھا کہ جتنے بھی لڑکوں پر پتھر بازی جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اُن کو ہٹایا جائے گا اور رہا کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن پر کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور اُنہیں ایک بہتر زندگی جینے کا موقعہ دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود آئے روز لوگوں کی گرفتاریوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں اور پھر دفعہ 370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد اس طرح کی گرفتاریاں معمول کی بات بن گئی اور لوگوں کو ماضی میں نکالی گئی ریلیوں میں شمولیت یا دوسری حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کا خمیازہ بُھگتنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں کشمیر کے بے شمار لوگ مختلف جیلوں میں اپنی زندگی مجبوری میں گزار رہے ہیں۔

پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35 اے کو کالعدم کرنے کے بعد جموں و کشمیر میں تشدد پھوٹنے کے اندیشے کو لے کر مرکزی حکومت نے پہلے ہی سخت اقدامات کیے تھے جس کے تحت سکیورٹی فورسز کی جانب سے وادی کے مختلف اضلاع سے نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ ان میں سے کئی نوجوانوں کو بعد میں رہا کیا گیا لیکن ایسے بھی نوجوان ہیں جو ابھی بھی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

جموں و کشمیر انتظامیہ کے مطابق اُن افراد کو احتیاطی طور پر حراست میں لیا گیا جن پر شک و شبہ تھا کہ وہ دوبارہ ایسی حرکتوں میں ملوث ہو سکتے ہیں جس سے وادی کا امن و امان درہم برہم ہو سکتا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی: ابھی بھی کئی نوجوان مقید

ای ٹی وی بھارت نے کچھ ایسے کنبوں سے بات کی جن کے بچوں کو ملک کی مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔

گرفتار شدہ نوجوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ 'مذکورہ نوجوان ماضی میں پتھر بازی کے واقعات میں ملوث تھے، اس لیے انہیں گرفتار کیا گیا۔'

اُن کا کہنا تھا کہ 'آخر کب تک ہمارے بچوں کو کشمیری ہونے کا خمیازہ بُھگتنا پڑے گا۔'

دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟

کچھ نوجوان مفلوک الحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس گزارا نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکیں۔ اُن میں سے کئی نوجوانوں کے والدین سخت علیل ہیں اور وہ جیل میں نظر بند اپنے لخت جگروں کی رہائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ کی گئی ایک خصوصی گفتگو کے دوران سماجی کارکن خرم پرویز کا کہنا تھا کہ 'مرکزی حکومت اس وقت جواب دہی سے اپنا پلہ جھاڑ رہی ہے۔ حکومت ایسے سخت اقدامات اٹھانے کے لیے امن و قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتی ہے لیکن انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ان سے بار بار انسانی حقوق کی پامالیوں پر لگاتار سوال پوچھ رہے ہیں۔'

اقوام متحدہ کی جانب سے بھارتی حکومت کو خط کے ذریعے جموں و کشمیر میں گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد ہو رہی 'انسانی حقوق کی پامالیوں' کی تحقیقات کرائے جانے پر وادی کے نامور سماجی کارکن خرم پرویز کا کہنا ہے کہ انہیں اُمید ہے کہ بھارتی حکومت کو ایک دن کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ کشمیر میں مبینہ طور پر ہو رہی انسانی حقوق کی پامالیوں کو لے کر اقوام متحدہ نے مرکزی حکومت کو ایک خط ارسال کیا تھا اور ان سے جواب طلب کیا تھا لیکن ہر بار کی طرح مرکزی سرکار نے کشمیر کے مسئلے کو اندرونی مسئلہ بتاتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے لوگوں نے اپنی روداد سنائی اور روتے بلکتے اُنہوں نے اپنی دادرسی بیان کی۔ اُن کے مطابق اُن کے بچے جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

پانچ اگست 2019 میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے بھاری اقتدار کا استعمال کر کے ریاست کو دفعہ 370 کے تحت ملے خصوصی اختیارات کو منسوخ اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کا فیصلہ لیا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کے لوگ خاموش تو تھے لیکن دفعہ 370 ہٹائے جانے کا غم اُنہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا جس کا افسوس آج بھی کشمیری عوام کے چہروں پر صاف نظر آ رہا ہے۔

اس دوران کشمیر میں تمام طرح کا نظام ٹھپ کیا گیا۔ کشمیری لوگوں کا جیسے باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

جموں وکشمیر میں قدغنیں اور پابندیاں عائد کی گئیں اور یہاں کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی نظر بند کیا گیا اور مواصلاتی نِظام کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

ایک سال کے دوران کشمیر کے سیاسی منظرنامہ میں کیا بدلا؟

دفعہ 370 کی منسوخی سے پہلے وادی کے طول و عرض میں سیاست سے لے کر سماجی اور باقی دیگر تنظیوں کی طرف سے اِس موضوع کو لے کر ہر کوئی سراپا تھا اور یک زبان ہو کر سبھی جماعتیں ریاست کی اس حاصل خصوصی پوزیشن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سرگرمِ عمل تھے کیونکہ دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی کو منظور نہیں تھی اور اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے وادی کے مختلف اضلاع سے سیاسی، سماجی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے احتجاجی ریلیاں نکالی گیں کیونکہ لوگوں کو اندیشہ ہو چکا تھا کہ مرکزی حکومت دفعہ 370 اور 35A کو ہٹانے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے۔

اس دفعہ کے ساتھ لوگوں کے جذبات جڑے تھے، اس دفعہ کی شِق کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو قانون کے مطابق ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ بھارت کے آئین کا کشمیر سے متعلق یہ قانون ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں منظور کیا تھا۔ 1953 میں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیر آئینی معزولی کے بعد وزیر اعظم ہند جواہر لعل نہرو کی سِفارش پر صدارتی حکمنامہ کے زریعہ آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا جس کی وجہ سے کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل تھی۔

واضح رہے کہ کشمیر میں گرفتاریاں دفعہ 370 اور 35اے کی منسوخی سے پہلے بھی عمل میں لائی جا رہی تھیں مگر بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت میں محبوبہ مفتی نے اعلان کیا تھا کہ جتنے بھی لڑکوں پر پتھر بازی جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اُن کو ہٹایا جائے گا اور رہا کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے مستقبل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن پر کوئی بھی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور اُنہیں ایک بہتر زندگی جینے کا موقعہ دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود آئے روز لوگوں کی گرفتاریوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں اور پھر دفعہ 370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد اس طرح کی گرفتاریاں معمول کی بات بن گئی اور لوگوں کو ماضی میں نکالی گئی ریلیوں میں شمولیت یا دوسری حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کا خمیازہ بُھگتنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں کشمیر کے بے شمار لوگ مختلف جیلوں میں اپنی زندگی مجبوری میں گزار رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.