جنوبی کشمیر کے ناگ بل ہاپت ناڑ علاقے کے مقامی لوگوں کا کہنا کہ 'علاقے میں قریب پانچ سو خاندان رہائش پذیر ہیں اور صرف چند ہی لوگ سرکاری ملازم ہیں۔ باقی لوگوں کا گزر بسر دن بھر کی کمائی پر منحصر ہے لیکن متعلقہ محکمہ نے پانچ سو خاندانوں میں سے صرف چند ہی خاندان کو بی پی ایل کے زمرے میں لایا ہے جبکہ اس علاقے میں اکثر لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جس کے باعث وہ سرکار کی جانب سے اجراء کردہ مراعات سے بھی محروم رہتے ہیں۔'
یہاں تک کہ حالیہ وبائی صورت حال کے پیش نظر یہ مفت راشن کی تقسیم کاری سے بھی محروم رہے۔ مقامی لوگوں نے متعلقہ حکام سے اس بارے میں از سر نو جائزہ لینے کی اپیل کی ہے۔
مقامی لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ 'ہم جیسے غریب لوگوں کی کوئی نہیں سنتا۔ ہم نے بہت بار متعلقہ افسران کے نوٹس میں یہ معاملہ لایا ہے مگر وہ افسران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔'
ای ٹی وی بھارت نے اس بارے میں جب متعلقہ محکمہ کے اسسٹنت ڈائریکٹر ولی محمد سے بات کی تو انہوں کہا کہ 'کسی بھی علاقے میں بی پی ایل وغیرہ کے زمرے میں لانے کے لئے صارفین کی ایک مختص تعداد ہوتی ہے اور ہدایت کے مطابق ہی چولہ بندی کے دوران قریب 70 فیصد خاندانوں کو مکمل جانچ پڑتال کے بعد اس زمرے میں اندراج کرکے راشن کی تقسیم کاری عمل میں لایا جاتا ہے۔ جہاں تک ناگ بل ہاپت ناڑ کا تعلق ہے وہاں 80 فیصد کا احاطہ کیا گیا ہے اور جانچ پڑتال کے بعد ہی 122 خاندانوں کو اے پی ایل کے زمرے میں لایا گیا ہے'۔
ادھر مقامی لوگوں نے متعلقہ حکام سے اس بارے میں از سر نو جائزہ لینے کی اپیل کی ہے۔
واضح رہے کہ پہلگام کے علاقوں میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ متعلقہ محکمہ نے محض صرف چند ہی خاندان بی پی ایل کے زمرے میں لایا ہے، جبکہ ان علاقوں میں بھی اکثر لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔