ETV Bharat / state

سالانہ امر ناتھ یاترا کا 21 جولائی سے آغاز - lockdown amarnath yatra

عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے رواں برس امر ناتھ یاترا کی مدت صرف پندرہ دن رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ یاترا اسی مدت کیلئے منعقد ہوتی تھی۔

سالانہ امر ناتھ یاترا 21 جولائی سے شروع ہوگی
سالانہ امر ناتھ یاترا 21 جولائی سے شروع ہوگی
author img

By

Published : Jun 6, 2020, 12:03 PM IST

Updated : Jun 6, 2020, 4:36 PM IST

جنوبی کشمیر کی ہمالیائی پہاڑیوں میں 3880 میٹر بلندی پر واقع ایک غار میں قدرتی طور بننے والے برف کے شیولنگم کی پوجا کے لیے سالانہ امرناتھ یاترا 21 جولائی سے شروع ہوگی۔

سالانہ امر ناتھ یاترا کا 21 جولائی سے آغاز


شری امرناتھ شرائن بورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق رواں برس امر ناتھ یاترا کی مدت کو مختصر کرکے صرف پندرہ دن رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور پہاڑی گپھا میں ہندوؤں کے دیوتا شو سے منسوب برفانی لنگم کے درشن کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہندو کشمیر وارد ہوتے ہیں۔

تقریباً 2 ماہ تک جاری رہنے والی سالانہ امرناتھ جون مہینے میں شروع ہوتی تھی اور اگست کو رکھشا بندھن کے تہوار کے موقع پر خصوصی پوجا کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی تھی،تاہم رواں برس شرائن بورڈ انتظامیہ کی جانب سے یاترا کی مدت کو مختصر کرکے صرف پندرہ دن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاتریوں کا پہلا قافلہ 21 جولائی کو درشن کے لیے روانہ ہوگا۔

یہ یاترا گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ اسکا آغاز ایک مسلمان گڈریے کی نشاندہی کے بعد ہوا ہےجس نے اونچے پہاڑوں کے بیچ ایک مقام پر برف سے بنی ایک مورت جیسی دیکھی جو شیو لنگم سے ملتی جلتی تھی۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اسی غار میں شیو اور پاروتی کا ملاپ ہوا تھا۔

نوے کی دہائی کے آغاز تک امرناتھ یاترا کی مدت صرف پندرہ روز ہوا کرتی تھی لیکن کشمیر میں ملیٹنسی شروع ہونے کے بعد یہ یاترا تضادات کا شکار رہی۔ نوے کی دہائی کے وسط میں ایک عسکریت پسند تنظیم نے یاترا پر پابندی لگائی جس کے بعد اس یاترا پر حکام کی توجہ مرکوز ہوگئی۔

یاترا کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کئے جاتے ہیں۔

اضافی توجہ کے بعد اس یاترا کی جانب زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو راغب کرنے کی مہم شروع کی گئی چنانچہ سال بھر اسکے لیے قومی میڈیا میں تشہیری مہم چلائی گئی۔

بعد میں یاترا کی مدت پہلے ایک ماہ اور بعد میں دو ماہ تک بڑھائی گئی جس پر کشمیر میں عام لوگوں اور خاص طور پر ماحولیات کے ماہرین نے اعتراض کیا۔

سنہ 2008 میں غلام نبی آزاد کی قیادت میں کانگریس اور پی ڈی پی حکومت نے امرناتھ شرائن بورڈ کے نام سرکاری اراضی الاٹ کی جس پر کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ حکومت کے فیصلے کے حق میں جموں اور اسکے نواحی اضلاع میں بھی احتجاج کیا گیا جس سے سابق ریاست کے دو اہم صوبے مذہبی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوگئے۔

گوکہ حکومت نے اراضی کی منتقلی کا حکمنامہ واپس لیا لیکن اس صورتحال کے نتیجے میں مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا۔ سنہ 2008میں پیدا شدہ صورتحال سے جو دراڑ پیدا ہوئی اسکو بعد میں کبھی پاٹا نہیں جاسکا ۔

سنہ 2017میں امرناتھ یاترا ایک بار پھر موضوع بحث بنی جب مشتبہ عسکریت پسندوں نے یاتریوں کی ایک بس پر حملہ کرکے کئی یاتریوں کو ہلاک کردیا۔

گزشتہ برس 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام والے دو علاقوں میں تقسیم کئے جانے کا فیصلہ عین اس وقت لیا گیا جب امر ناتھ یاترا جاری تھی۔

حکام نے یاترا کو قبل از وقت بند کرنے کا اعلان کیا اور تمام یاتریوں کو خصوصی بسوں کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں کشمیر سے واپس لیجایا گیا۔

حکام نے استدلال پیش کیا کہ امرناتھ یاترا کے راستے میں اسلحہ کی بھاری کھیپ برآمد کی گئی ہے جس کے پس منظر میں یاترا پر حملوں کے خدشات ہیں۔

بعد کی صورتحال کے بعد پتہ چلا کہ یاترا پر حملے کے خدشات نہیں تھے بلکہ گورنر انتظامیہ کشمیر کو ایک لاک ڈاؤن کے دائرے میں لانا چاہتی تھی تاکہ ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف مظاہرے منعقد نہ کئے جاسکیں۔

پانچ اگست کے بعد کشمیر میں عائد کی گئی بندشیں کئی صورتوں میں ابھی بھی لاگو ہیں۔ حکام نے انٹرنیٹ کی4 جی خدمات بحال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ متعدد سیاسی رہنما ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔

جنوبی کشمیر کی ہمالیائی پہاڑیوں میں 3880 میٹر بلندی پر واقع ایک غار میں قدرتی طور بننے والے برف کے شیولنگم کی پوجا کے لیے سالانہ امرناتھ یاترا 21 جولائی سے شروع ہوگی۔

سالانہ امر ناتھ یاترا کا 21 جولائی سے آغاز


شری امرناتھ شرائن بورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق رواں برس امر ناتھ یاترا کی مدت کو مختصر کرکے صرف پندرہ دن رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور پہاڑی گپھا میں ہندوؤں کے دیوتا شو سے منسوب برفانی لنگم کے درشن کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہندو کشمیر وارد ہوتے ہیں۔

تقریباً 2 ماہ تک جاری رہنے والی سالانہ امرناتھ جون مہینے میں شروع ہوتی تھی اور اگست کو رکھشا بندھن کے تہوار کے موقع پر خصوصی پوجا کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی تھی،تاہم رواں برس شرائن بورڈ انتظامیہ کی جانب سے یاترا کی مدت کو مختصر کرکے صرف پندرہ دن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاتریوں کا پہلا قافلہ 21 جولائی کو درشن کے لیے روانہ ہوگا۔

یہ یاترا گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ اسکا آغاز ایک مسلمان گڈریے کی نشاندہی کے بعد ہوا ہےجس نے اونچے پہاڑوں کے بیچ ایک مقام پر برف سے بنی ایک مورت جیسی دیکھی جو شیو لنگم سے ملتی جلتی تھی۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اسی غار میں شیو اور پاروتی کا ملاپ ہوا تھا۔

نوے کی دہائی کے آغاز تک امرناتھ یاترا کی مدت صرف پندرہ روز ہوا کرتی تھی لیکن کشمیر میں ملیٹنسی شروع ہونے کے بعد یہ یاترا تضادات کا شکار رہی۔ نوے کی دہائی کے وسط میں ایک عسکریت پسند تنظیم نے یاترا پر پابندی لگائی جس کے بعد اس یاترا پر حکام کی توجہ مرکوز ہوگئی۔

یاترا کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کئے جاتے ہیں۔

اضافی توجہ کے بعد اس یاترا کی جانب زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو راغب کرنے کی مہم شروع کی گئی چنانچہ سال بھر اسکے لیے قومی میڈیا میں تشہیری مہم چلائی گئی۔

بعد میں یاترا کی مدت پہلے ایک ماہ اور بعد میں دو ماہ تک بڑھائی گئی جس پر کشمیر میں عام لوگوں اور خاص طور پر ماحولیات کے ماہرین نے اعتراض کیا۔

سنہ 2008 میں غلام نبی آزاد کی قیادت میں کانگریس اور پی ڈی پی حکومت نے امرناتھ شرائن بورڈ کے نام سرکاری اراضی الاٹ کی جس پر کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ حکومت کے فیصلے کے حق میں جموں اور اسکے نواحی اضلاع میں بھی احتجاج کیا گیا جس سے سابق ریاست کے دو اہم صوبے مذہبی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوگئے۔

گوکہ حکومت نے اراضی کی منتقلی کا حکمنامہ واپس لیا لیکن اس صورتحال کے نتیجے میں مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا۔ سنہ 2008میں پیدا شدہ صورتحال سے جو دراڑ پیدا ہوئی اسکو بعد میں کبھی پاٹا نہیں جاسکا ۔

سنہ 2017میں امرناتھ یاترا ایک بار پھر موضوع بحث بنی جب مشتبہ عسکریت پسندوں نے یاتریوں کی ایک بس پر حملہ کرکے کئی یاتریوں کو ہلاک کردیا۔

گزشتہ برس 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام والے دو علاقوں میں تقسیم کئے جانے کا فیصلہ عین اس وقت لیا گیا جب امر ناتھ یاترا جاری تھی۔

حکام نے یاترا کو قبل از وقت بند کرنے کا اعلان کیا اور تمام یاتریوں کو خصوصی بسوں کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں کشمیر سے واپس لیجایا گیا۔

حکام نے استدلال پیش کیا کہ امرناتھ یاترا کے راستے میں اسلحہ کی بھاری کھیپ برآمد کی گئی ہے جس کے پس منظر میں یاترا پر حملوں کے خدشات ہیں۔

بعد کی صورتحال کے بعد پتہ چلا کہ یاترا پر حملے کے خدشات نہیں تھے بلکہ گورنر انتظامیہ کشمیر کو ایک لاک ڈاؤن کے دائرے میں لانا چاہتی تھی تاکہ ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف مظاہرے منعقد نہ کئے جاسکیں۔

پانچ اگست کے بعد کشمیر میں عائد کی گئی بندشیں کئی صورتوں میں ابھی بھی لاگو ہیں۔ حکام نے انٹرنیٹ کی4 جی خدمات بحال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ متعدد سیاسی رہنما ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔

Last Updated : Jun 6, 2020, 4:36 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.