جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے کہری بل ونتراگ گاؤں کے لوگ انوکھے طریقہ سے افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ علاقہ ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً 20 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق گاؤں تقریباً دو سو کنبوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہاں کی مادری زبان کشمیری ہے، تاہم یہ لوگ پشتو بولتے ہیں اور کشمیری زبان کا استعمال یہاں دوسری زبان کے طور پر کرتے ہیں۔
دراصل سنہ 1947 سے قبل ان کے آبا و اجداد نے افغانستان سے ہجرت کر کے کشمیر میں سکونت اختیار کی اور آہستہ آہستہ یہ کشمیری سماج کا ایک حصہ بن گئے۔ اس لئے انہیں کشمیری پٹھان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ان کی سب سے زیادہ آبادی کشمیر کے اننت ناگ، گٹلی باغ گاندربل، بارہمولہ اور کشتواڑ میں پائی جاتی ہے۔
برسوں سے یہاں آباد یہ لوگ کشمیری تہذیب و ثقافت کو مکمل طور اپنا چکے ہیں، تاہم اپنی تہذیب سے جڑی کچھ روایات ان کے سماج میں ابھی بھی برقرار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افطار کرنے کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ یہاں کے بیشتر گھروں کے آنگن میں تندور نظر آئیں گے۔
ماہ رمضان کے دوران آس پڑوس کی خواتین اجتماعی طور ان تندوروں پر اکٹھا ہو کر روٹیاں تیار کرتی ہیں۔ روٹیاں تیار ہونے کے بعد ان کو دو حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔ جس کا ایک حصہ خواتین، جبکہ دوسرا حصہ مردوں کے لئے مخصوص رکھا جاتا ہے۔ ہمسایہ خواتین اجتماعی طور افطاری کا اہتمام کرتی ہیں جبکہ اسی طرح محلہ کے مرد مساجد میں ایک ہی دسترخوان پر اجتماعی طور افطار کرتے ہیں۔
مرد اپنے حصہ کی روٹیوں کے ساتھ گھر میں تیار کیا ہوا سالن مسجد میں لاتے ہیں اور دسترخوان پر ایک دوسرے میں بانٹ کر کھاتے ہیں۔ یہی عمل خواتیں بھی مل جل کر گھروں کے اندر دہراتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قدیم روایت ہے جو اب تک ان کے یہاں چلی آرہی ہے۔ اس طرح کی روایت افغانستان اور پختون خواہ میں اب بھی قائم ہے۔ اس طرح کی روایت نہ صرف ان کے تہذیب و ثقافت کو فروغ دیتی ہے بلکہ یہ یکجہتی، آپسی بھائی چارہ، محبت و اخوت برقرار رکھنے کا ایک منفرد طریقہ ہے۔