ثانیہ مرزا نے پانچ سال کی عمر میں ٹینس کی تربیت لینا شروع کردی تھی۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں پیشہ وارانہ ٹینس کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کے طویل کریئر Sania Mirza Tennis Career میں بہت سے اتار چڑھاؤ رہے۔ چوٹ، تنازع اور انعامات، ثانیہ نے سب کچھ دیکھا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں خواتین ٹینس میں ثانیہ کے نام کئی ریکارڈ ہیں۔ اتنے شاندار سفر کے بعد 35 سالہ ثانیہ نے اعلان کیا کہ سال 2022 ان کا آخری سیزن ہوگا۔ ثانیہ نے ایک انٹرویو میں اپنے کریئر اور مستقبل کے منصوبوں کو شیئر کیا۔
ثانیہ مرزا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ بھارتی خواتین کئی شعبوں میں کامیاب رہی ہیں لیکن کچھ کھیلوں جیسے ٹینس کو خواتین کے لیے خاص نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میرے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے ملک کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کو بھی ثابت کرنا ہے کہ بھارتی خواتین بین الاقوامی ٹینس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ یہ میرا سب سے بڑا چیلنج رہا ہے اور میں اس میں کامیاب ہوئی ہوں۔
ثانیہ نے کہا کہ مجھے کھیل پسند ہے۔ ٹینس میری محرک قوت ہے۔ زخموں اور سرجریز سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کھیل کے لیے میرا جنون مجھے برسوں سے لے چلا آرہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے اپنے پسندیدہ کھیل میں سبقت حاصل کرنے کی خواہش نے مجھے مزید محنت کرنے کی ترغیب دی۔ ایک بار جب میں کوئی ہدف طے کر لیتی ہوں، میں اسے حاصل کرنے تک پیچھے نہیں ہٹتی۔ میں اپنی جانب سے ہمیشہ پوری کوشش کرتی ہوں۔ میرا خاندان ہمیشہ میری حمایت میں کھڑا رہا ہے۔
جب ثانیہ سے پوچھا گیا کہ انہیں کس چیز نے عظیم کھلاڑی بنایا، تو انہوں نے کہا کہ ٹیلنٹ، محنت، لڑنے کا جذبہ، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی خواہش اور اعتماد۔ شکست کے سامنے مایوس نہ ہوں۔ مایوس کن میچ کے بعد جوابی وار کرنے کی کی خواہش اور نتیجہ سے قطع نظر ہر میچ سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نے مجھے ایک بہترین کھلاڑی بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو ان تمام چیلنجز کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے جو بڑی کامیابی کے راستے میں آتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ پر یقین رکھنا چاہیے۔ اگر آپ کی سوچ درست ہے تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ثانیہ مرزا نے کہا کہ 'طویل عرصے تک گھر اور خاندان سے دور رہنے کی وجہ سے زچگی نے میرے لیے اسے دُگنا مشکل بنا دیا۔ اگر میں اپنے بیٹے کو گھر پر چھوڑ دیتی ہوں تو میرے ذہن میں اسی کی فکر ہوتی ہے۔ میں کورونا کی وبا کی وجہ سے بیٹے کو ساتھ میں نہیں لے جاسکتی۔ ایک پیشہ ور خاتون کھلاڑی ہونا یقینی طور پر خاندان اور کھیلوں کو مربوط کرنے کا ایک مشکل پہلو ہے۔
سوال: آپ بھارتی بچوں کے لیے ٹینس ریکیٹ اپنانے کے لیے مشعل راہ ہیں، یہ سن کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟
جواب: جب میں یہ سنتی ہوں تو مجھے ہمیشہ بہت خوشی ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک بہترین تجربہ بھی رہا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے بچوں کو ٹینس کھیلنے کی ترغیب دی۔
سوال: ریٹائرمنٹ کے بعد کیا آپ خود کو کوچ یا کمنٹیٹر کے طور پر دیکھتی ہیں؟
جواب: یقینی طور پر ٹینس کے ساتھ میری وابستگی برقرار رہے گی۔ اگرچہ ایک کھلاڑی کے طور پر نہیں لیکن میں اپنے آپ کو اس کھیل سے الگ نہیں کر سکتی جس سے مجھے پیار ہے۔
سوال: آج کھلاڑیوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
جواب: کورونا وبا کھلاڑیوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں تھی۔ کھلاڑیوں کو جسمانی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ذہنی تندرستی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر کھلاڑی ایک مختلف اصول کی پیروی کرتا ہے۔ کچھ لوگ چھٹیوں میں آرام کرنے کے لیے باہر جا سکتے ہیں جب کہ کچھ لوگ خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وبائی مرض کی وجہ سے کھلاڑی اپنے بایو ببل میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ طویل مدت میں ان کی نفسیات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
سوال: خواہشمند کھلاڑیوں اور ان کے والدین کو کوئی مشورہ؟
ایسے کھیل کا انتخاب کریں جس میں آپ کی دلچسپی ہو۔ آپ کو روزانہ اس کی مشق کرنی ہوگی۔ جب تک آپ میں اس کھیل کے تئیں جنون نہیں ہوگا تب تک آپ اس میں سبقت نہیں لے سکتے۔ پیشہ ور کھلاڑی بننا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ناممکن ہے۔ اگر آپ کو کھیل کا شوق ہے تو آپ ایک کامیاب کریئر بنا سکتے ہیں۔
سوال: اتنے برسوں کے بعد بھی بھارت میں دوسری ثانیہ نظر نہیں آرہی، ایسا کیوں ہے؟
جواب: بہت سی وجوہات ہیں، کھیلوں کا اہتمام ہونا چاہیے، مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ ہمیں ٹیلنٹ کی شناخت کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کو فروغ دینے کے لیے کافی اسپانسرز ہونے چاہئیں۔ ٹینس ایک مہنگا کھیل ہے، کسی کھلاڑی کے کریئر میں ایک پوائنٹ کے بعد صرف اسپانسر شپ ہی انہیں دنیا میں لے جا سکتی ہے۔ اگر ہر کھلاڑی کے پاس تمام مناسب مواقع اور ٹیلنٹ ہو تو ہم یقینی طور پر بہت سے ٹینس اسٹارز کو دیکھ سکتے ہیں۔