سنہ 2018 کے ایشین گیمز میں دو سلور میڈل جیتنے والی بھارتی ایتھلیٹ دوتی چند کے ساتھ ای ٹی وی بھارت نے خصوصی بات چیت کی ہے۔ پیش ہے ان سے ہوئی خاص بات چیت کے کچھ اہم سوال۔
آپ کا لاک ڈاؤن پیریڈ کیسا رہا؟
لاک ڈاؤن پیریڈ ٹھیک گزر رہا ہے۔ کوویڈ 19 وبائی بیماری سے پہلے میں ہمیشہ مختلف تقریبات میں حصہ لینے کے لئے ایک ریاست سے دوسری ریاست کا سفر کرتی تھی، جس کی وجہ سے مجھے کبھی بھی اپنے کنبہ کے ساتھ رہنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ اب میں ان کے ساتھ وقت گزار رہی ہوں۔
کورونا وائرس پر آپ کا کیا خیال ہے؟
دراصل یہ تھوڑا سا کڑوا ہے کیوں کہ میں اپنے کنبہ کے ساتھ وقت گزارنے پر خوش تو ہوں، لیکن یہ بھی افسوسناک ہے کہ اب ٹوکیو گیمز کے لئے میری ساری تیاری ضائع ہوچکی ہے۔ نیز مجھے اپنا پیسہ بھی واپس نہیں ہوگا جو میں نے 'مارکی ایونٹ' کی تیاری کے لئے لگایا تھا۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ٹوکیو گیمز کے معطل ہونے سے آپ کو تیاری کے لئے مزید وقت مل گیا؟
میری تربیت کا انحصار آنے والے ایونٹ پر ہے اور میں نے اکتوبر 2019 میں ٹوکیو گیمز کے لئے اپنی تیاری شروع کردی تھی۔ اور مجھے اپریل یا مئی 2020 تک سمر گیمز کے لئے کوالیفائی کرنا تھا۔ لیکن اب جب ٹوکیو اولمپکس ایک سال کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے تو مجھے تیاری دوبارہ شروع کرنی ہوگی۔
کریئر کے شروعاتی دور میں آپ کو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا؟
شروع شروع میں تو مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سارے کنبے ایسے ہیں جو لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ لیکن میں اپنے اہل خانہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا۔
نیز جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو بغیر کسی جوتے کے اپنے گاؤں میں دوڑتی تھی، وہاں کوئی گراؤنڈ نہیں تھا اور میرے پاس کوئی کوچ نہیں تھا۔ میرے گاؤں کے لوگ بھی ایتھلیٹ بننے کے مقصد پر مجھ پر تنقید کرتے تھے۔ لیکن میں نے اپنی دوڑ جاری رکھی۔
آپ نے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن کب آپ کو یہ احساس ہوا کہ آپ ایک پیشہ ور ایتھلیٹ بننا چاہتی ہیں؟
میری بہن کو اسپورٹس کوٹہ کی وجہ سے سرکاری ملازمت ملی تھی، لہذا اس نے مجھے بچپن میں ہی اسپرنٹر بننے کی ترغیب دی تاکہ میں بھی ان کی طرح سرکاری نوکری حاصل کر سکوں۔ تقریبا تین چار سال تک میں نے قومی سطح پر کھیلا اور 18 سال کی عمر میں سرکاری ملازمت بھی حاصل کرلی۔
لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہوئی لوگوں نے میری کوششوں کو پہچاننا شروع کیا اور اس کی تعریف بھی کی ، لہذا میں نے محنت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ، جس نے بین الاقوامی ایتھلیٹ بننے میں میری مدد کی۔ میں نے 2013 میں اپنا پہلا بین الاقوامی تمغہ جیتا تھا اور اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں نے ایشین گیمز میں دو تمغے حاصل کیے۔ میں یونیورسٹی مقابلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی بھارتی کھلاڑی ہوں۔
آپ کے ہم جنس ہونے کی بات سامنے آنے کے بعد لوگوں نے کیا رد عمل ظاہر کیا؟
میرے لئے یہ محبت ہے۔ لوگ اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ لیکن میں اپنے ایک دوست سے محبت کرتی ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو یہ نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں یا اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اس معاملے پر میری ماں نے مجھ سے کہا کہ آپ بڑی ہو گئی ہو اور فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے۔
جب میں نے انکشاف کیا کہ میں ہم جنس ہوں تو لوگوں نے مجھے ٹارگیٹ کرنا شروع کر دیا لیکن ایلن ڈی جینس جیسے بین الاقوامی اسٹار نے میری مدد کی اوربالی ووڈ کے بہت سے اداکار نے بھی میری حمایت میں آواز اٹھایا تب لوگوں کا سلوک بدل گیا۔
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ رشتہ کب تک قائم رہے گا۔ لیکن جب تک ہم ایک دوسرے کو پسند کریں گے ہم ساتھ رہیں گے۔ میں اپنے ساتھی کو کبھی بھی زبردستی ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کروں گی۔